پاکستان کا بھی انڈین سفارت کار کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم

پاکستان نے اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے ایک عہدیدار کو ناپسندیدہ شخص قرار دیتے ہوئے انہیں 24 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔

18 جنوری، 2024 کی اس تصویر میں ایک سکیورٹی اہلکار اسلام آباد میں واقع دفتر خارجہ کی عمارت کے باہر پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے عملے کے ایک رکن کو ان کی مراعات یافتہ حیثیت سے متصادم سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر ناپسندیدہ شخص (پرسونا نان گراٹا) قرار دیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کی ہدایت کر دی۔

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی جانب سے 22 مئی کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’اس فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے انڈین ناظم الامور کو وزارت خارجہ طلب کیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ انڈین ہائی کمیشن کا کوئی بھی سفارت کار یا عملہ اپنے مراعات اور حیثیت کا کسی بھی طرح غلط استعمال نہ کرے۔‘

اسلام آباد کی طرف سے انڈین ہائی کمیشن کے اہلکار کو ناپسندیدہ قرار دیے جانے کا معاملہ نئی دہلی میں ایک پاکستانی سفارت کار کو ملک سے نکلنے کے احکامات کے محض چند گھنٹے بعد ہی سامنے آیا۔

انڈیا نے بدھ کی شام دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار کو ناپسندیدہ شخص قرار دیتے ہوئے ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ 

بدھ کو انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں کام کرنے والے ایک پاکستانی عہدیدار کو ’انڈیا میں اپنی سرکاری حیثیت سے مطابقت نہ رکھنے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر پرسونا نان گراٹا قرار دیا گیا ہے۔‘

پاکستانی عہدیدار کو 24 گھنٹے کے اندر انڈیا چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔

اس سے قبل 13 مئی کو بھی انڈین حکومت نے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک عہدیدار کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے کر ملک سے نکلنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے انڈیا کے اس اقدام سے متعلق پاکستان کے وزارت خارجہ کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تھا تاہم خبر کی اشاعت تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔ 

سفارت کاروں کی بے دخلی کی یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب بدھ کو پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے خضدار میں آرمی پبلک سکول کی ایک بس میں دھماکے کے واقعے میں چار بچوں سمیت چھ اموات ہوئیں، جس کا الزام پاکستان نے نئی دہلی پر لگایا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق حملے میں بچوں سمیت کم از کم 43 افراد زخمی بھی ہوئے۔

انڈیا پر الزام عائد کرتے ہوئے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’میدان جنگ میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد انڈیا کی پراکسیز ان گھناؤنی اور بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی اور بدامنی پھیلا رہی ہیں۔‘

دوسری جانب انڈیا نے خصدار حملے میں ملوث ہونے کے پاکستانی الزامات کو مسترد کر دیا۔

انڈین دفتر خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ ’انڈیا خضدار حملے میں ملوث ہونے کے پاکستانی بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتا ہے۔‘

اسلام آباد اور نئی دہلی کے سفارتی تعلقات 22 اپریل 2025 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد سے کشیدہ ہیں، جس میں 26 افراد کی اموات ہوئی تھیں۔

انڈیا نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، تاہم اسلام آباد اس کی تردید کرتا آیا یے۔

بعدازاں انڈیا نے پہلگام حملے کو جواز بنا کر چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے تھے، جس کے بعد دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے تین فرانسیسی رفال لڑاکا طیاروں سمیت چھ جنگی طیارے مار گرائے۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں عالمی رہنماؤں نے دونوں کو تحمل سے کام کرنے کی اپیل کی اور بالآخر 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اعلان کیا کہ پاکستان اور انڈیا فوری طور پر سیزفائر پر راضی ہوگئے ہیں۔

جنگ بندی کے بعد انڈیا اور پاکستان کی جانب سے سفارتی و سیاسی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا چکی ہیں، جو دونوں کا کیس مختلف ممالک کے سامنے رکھیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا