انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی آج (17 ستمبر کو) اپنی 75 ویں سالگرہ منا رہے ہیں جس کے بعد وہ ایک ایسی عمر کو پہنچ گئے ہیں جسے ان کی اپنی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں طویل عرصے سے سیاسی کیریئر کے لیے غیر تحریری حد سمجھا جاتا رہا ہے۔
وزیر اعظم کے لیے سکولوں اور اخبارات کی طرف سے سالگرہ کی مبارک باد کے پیغامات جاری کیے گئے جب کہ اس موقع پر خون کے عطیات کی مہمات بھی منعقد کی جا رہی ہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں اور سوشل میڈیا پر اقتدار کے لیے عمر کی حد کے حوالے سے سوالات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
مودی کی عمر پر بحث جولائی میں اس وقت زور پکڑ گئی جب یہ موضوع ایک غیر متوقع شخصیت کی جانب سے سامنے آیا یعنی انتہا ہسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ اور مودی کے دیرینہ ساتھی موہن بھگوت کی جانب سے۔
آر ایس ایس بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم ہے اور اس کے کارکن پارٹی کے مستقبل پر خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
بھگوت نے جولائی میں ناگپور میں ایک کتاب کی رونمائی کے موقع پر ہندو قوم پرست نظریہ ساز مورپنت پنکلے کے الفاظ یاد کرتے ہوئے کہا: ’جب آپ 75 کے ہوجاتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اب آپ کو رک جانا چاہیے اور دوسروں کے لیے جگہ بنانی چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پنکلے اکثر مذاق میں کہا کرتے تھے کہ اس عمر میں جب کسی کو شال پہنائی جائے تو یہ سماج کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب آپ کو (عہدے سے) الگ ہو جانا چاہیے۔‘
یہ بات ایسے وقت میں کہی گئی جب صرف دو ماہ بعد خود موہن بھگوت اور نریندر مودی دونوں کی عمر 75 ہونے والی تھی یعنی بھگوت 11 ستمبر اور مودی 17 ستمبر کو 75 سال کو پہنچنے والے تھے۔ آر ایس ایس کے سربراہ کے اس بیان کو وزیر اعظم کے لیے ایک پوشیدہ پیغام قرار دیا گیا۔
اس موقع نے پھر سے یہ سوال زندہ کر دیا ہے کہ کیا مودی، جنہوں نے ماضی میں سینیئر رہنماؤں کو 75 برس کی عمر میں سیاست کے مرکزی کردار سے ہٹنے پر مجبور کر کے فائدہ اٹھایا، اب خود بھی اسی اصول پر عمل کریں گے یا نہیں۔
خود مودی کے عروج کی بنیاد بھی اسی غیر تحریری اصول پر رکھی گئی تھی۔ 2013 میں بی جے پی کے سینیئر رہنما ایل کے اڈوانی کو اس وقت کنارے کر دیا گیا جب موہن بھگوت نے انہیں کہا کہ 2009 کا انتخاب ان کا آخری موقع تھا۔ اس کے بعد مودی کو پارٹی کے وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر آگے بڑھنے کا راستہ ملا جو 2014 کی جیت پر ختم ہوا۔
اپوزیشن جماعتوں نے اس موقعے کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا: ’اب وہ (مودی) 75 برس کے ہو گئے ہیں۔ وہ اقتتدار سے کب ہٹیں گے؟ یہ سوال بھی ہمارے سامنے ہے۔ کیا وہ جائیں گے؟ مودی جی نے باقی سب کو ہٹا دیا تھا۔ انہیں ملک سے کوئی سروکار نہیں، صرف اپنی کرسی کی فکر ہے۔‘
کانگریس کے ایک اور سینیئر رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ ’جس بات پر آپ خود عمل نہ کر سکیں اس کی تبلیغ کرنا خطرناک ہے۔‘ انہوں نے بی جے پی کے مارگ درشک منڈل (رہنما اصولوں کا بورڈ) کی طرف اشارہ کیا جو 75 برس کی عمر کو پہنچنے والے پارٹی رہنماؤں کو ریٹائر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
ایک اور شدت پسند ہندو تنظیم شیو سینا کے رہنما ایم پی سنجے راوت نے بھی یہی بات کہی: ’مودی نے ایل کے اڈوانی، جسونت سنگھ اور مرلی منوہر جوشی جیسے سینیئر پارٹی رہنماؤں کو 75 کے بعد ریٹائر ہونے پر مجبور کیا۔ دیکھتے ہیں کہ کیا وہ اپنے لیے بھی یہی معیار قائم رکھتے ہیں یا نہیں۔‘
دوسری جانب بی جے پی نے اب اس تصور کو مسترد کر دیا کہ پارٹی میں کوئی مقررہ ریٹائرمنٹ عمر ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے گذشتہ برس ان کے استعفے کی باتوں کو ’بے بنیاد افواہیں‘ قرار دے کر اعلان کیا تھا کہ ’مودی جی 2029 تک اقتدار میں رہیں گے۔‘
موہن بھگوت نے بھی بعد میں وضاحت کی کہ ان کے بیان کو موجودہ رہنماؤں کے لیے نہیں سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: ’میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں ریٹائر ہوں گا یا کوئی اور ریٹائر ہو۔ یہ کسی کے لیے نہیں ہے، نہ اپنے لیے۔ ہم زندگی کے کسی بھی وقت ریٹائر ہونے کے لیے تیار ہیں اور اس وقت تک کام کرنے کے لیے بھی تیار ہیں جب تک سنگھ (آر ایس ایس) ہم سے چاہے گا۔‘
معروف مصنف اور ماہر تعلیم اپوروانند نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا کہ یہ نام نہاد اصول کبھی باضابطہ پالیسی نہیں تھا۔
ان کے بقول: ’ایسی کوئی پالیسی کبھی نہیں تھی۔ یہ صرف ایک آسان راستہ تھا کہ اڈوانی جیسے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے ریٹائر کر دیا جائے۔ اس سے پارٹی کو موقع ملا کہ انہیں پس منظر میں دھکیل کر مودی کو طاقتور ہونے دیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بی جے پی سے باہر مودی کی عمر پر بہت شور ہے لیکن پارٹی کے اندر ’کوئی تناؤ نظر نہیں آتا، کوئی بے چینی دکھائی نہیں دیتی بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مودی ایک بار پھر ملک پر اپنی چھاپ چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہر جگہ 'شکریہ مودی' کے اشتہارات اس بات کا اشارہ ہیں کہ وہ پیچھے ہٹنے نہیں بلکہ دوبارہ اپنی موجودگی منوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
یہ پوچھنے پر کہ کیا بڑھتی عمر کے باعث مودی پارٹی پر اپنی گرفت یا آر ایس ایس کے کارکنوں پر اپنا اثر کھو سکتے ہیں، اپوروانند نے کہا کہ وزیر اعظم کی مقبولیت اب تقریباً مکمل طور پر ہندوتوا اور ہندو قوم پرستی پر قائم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان کی بطور 'ترقی کے داعی رہنما‘ کی شبیہ مدھم ہو چکی ہے۔ ان کے حامی بھی حکمرانی کی ناکامیوں کو دیکھ رہے ہیں۔ جو باقی ہے وہ بس ہندوتوا ہے۔ وہ اپنی مسلم مخالف تقریریں جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
مودی کے اصل حمایتیوں میں ان کی طاقت کم نہیں ہوئی، بلکہ وہ اس پر اور زیادہ زور دے رہے ہیں جیسے 2024 کے انتخابات کی تقریروں میں، جہاں ان پر نفرت انگیز تقاریر کرنے کے الزامات لگے، وہ اپنی اسی پالیسی پر پہلے سے زیادہ ڈٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اگرچہ ماضی میں تعلقات میں کشیدگی کے ادوار رہے ہیں لیکن مودی اور موہن بھگوت نے پچاس سال پر محیط رشتہ برقرار رکھا ہے جیسا کہ نریندر مودی نے اپنی کتاب ’جوتی پنچ‘ میں بھگوت کے والد کے بارے میں بڑے اچھے الفاظ میں لکھا تھا۔ یہی مشترکہ تاریخ ہے جس کی وجہ سے بہت سے مبصرین سمجھتے ہیں کہ بھگوت کے ریٹائرمنٹ کے بیانات کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں بدھ کو مودی کا جنون پوری طرح سے دکھائی رہا ہے۔ دہلی میں، مودی کے دست راست امت شاہ اس موقع پر نئے ہسپتال، 150 ڈائیلاسس مراکز اور آیوشمان آروگیا مندر (سرکاری ہیلتھ سینٹرز) کا افتتاح کریں گے۔ وزیر اعلیٰ ریکھا گپتا اور ان کی کابینہ انڈیا گیٹ پر تقریبات میں شریک ہوں گے جہاں خون کے عطیے کا کیمپ اور نمائش منعقد کی جائے گی جس کا عنوان ہے ’شکریہ مودی جی۔‘
دہلی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایک ہزار یونٹ خون جمع کرنے کا ہدف رکھتی ہے۔ لیکن گجرات، جو مودی کی آبائی ریاست ہے، وہاں حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ حیران کن طور پر 75 ہزار یونٹ خون اکٹھا کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ریاست بھر میں 330 خون عطیہ کیمپ لگائے گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دہلی اسمبلی کے سپیکر وجیندر گپتا نے اعلان کیا کہ اسمبلی احاطے میں ’اپنے وزیر اعظم کو جانیے‘ کے عنوان سے ایک خصوصی نمائش کا اہتمام کیا جائے گا۔ یہ نمائش بدھ سے شروع ہو کر دو اکتوبر تک جاری رہے گی جو ملک کے بانی گاندھی کی سالگرہ ہے۔
دا سٹیٹس مین کی رپورٹ کے مطابق دارالحکومت کی اسمبلی لائبریری میں مودی کے نام سے ایک کتاب گیلری بھی کھولی جائے گی جس میں وزیر اعظم کی تقاریر اور ان کی زندگی کے سفر سے متعلق دستاویزات شامل ہوں گی۔
خود مودی یہ دن بہار ریاست میں گزاریں گے، جہاں اس برس کے آخر میں سخت مقابلے والے انتخابات کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔ پچھلے برسوں میں بھی مودی اپنی سالگرہ پر ترقیاتی منصوبے شروع کرتے رہے ہیں۔ 2022 میں انہوں نے مدھیہ پردیش کے کونو نیشنل پارک میں آٹھ چیتے چھوڑے تھے جو ایک متنازع تحفظاتی منصوبے کا حصہ تھا۔
اس کے بعد مزید ایک درجن سے زیادہ چیتے افریقہ سے لائے گئے۔ ان میں سے آٹھ مختلف وجوہات جیسے گردے ناکارہ ہونے اور دیگر چوٹوں کے باعث مر گئے جبکہ نئے بچے بھی پیدا ہوئے۔ موجودہ وقت میں اس منصوبے کے تحت انڈیا میں چیتوں کی تعداد 25 ہے جن میں نو بالغ ( چھ مادہ اور تین نر) اور 16 انڈیا میں پیدا ہونے والے بچے شامل ہیں۔
© The Independent