28 ویں آئینی ترمیم زیر غور نہیں: وزیر قانون

وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کے مطابق ’28ویں ترمیم لانے کے حوالے سے صرف باتیں اڑائی جا رہی ہیں۔‘

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ 29 ستمبر، 2025 کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے (قومی اسمبلی)

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف نے جمعرات کو بتایا کہ حکومت 28ویں آئینی ترمیم نہیں لا رہی۔

وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اسلام آباد میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’28ویں ترمیم لانے کے حوالے سے صرف باتیں اڑائی جا رہی ہیں۔‘

حال ہی میں حکومت آئین میں 27ویں ترمیم کر چکی ہے جس کے بعد وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک نے 28ویں ترمیم لانے سے متعلق بیان دیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا ’28 آئینی ترمیم بالکل آ سکتی ہے، وزیراعظم نے بھی 28ویں ترمیم کا اشارہ دے دیا ہے۔ 28ویں ترمیم میں نیشنل فنانس ایوارڈ اور آرٹیکل 140 اے پر بات ہوگی۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘

ان کے علاوہ وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثنا اللہ بھی 28ویں آئین ترمیم لائے جانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’28ویں آئینی ترمیم جو عوامی معاملات سے متعلق ہوگی، سیاسی اتفاق رائے کی صورت میں متعارف کروائی جا سکتی ہے۔‘

وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے رواں ہفتے کہا تھا کہ ’پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ بننا چاہیے۔ 26ویں اور 27ویں ترامیم نے پاکستان کو استحکام دیا اور اگر ہمیں دیگر جماعتوں کی مدد سے مزید ترامیم کرنی پڑیں تو ہم کریں گے۔‘

تاہم اب وفاقی وزیر قانون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ایسی تمام خبروں کی تردید کر دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’28ویں آئینی ترمیم اس وقت زیر غور نہیں اور اس حوالے سے صرف باتیں اڑائی جا رہی ہیں۔‘

دوسری جانب 27ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والی نئی ’وفاقی آئینی عدالت‘ کے لیے مستقل عمارت کا انتخاب اس وقت وفاقی حکومت اور شہر کے وکلا کے لیے ایک انتظامی مسئلہ بن گیا ہے۔

قانونی ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس کی موجودہ جگہ سیکٹر جی فائیو میں واقع شاہراہ دستور پر ہی رہنے دیا جائے گا یا اس کی پرانی جگہ سیکٹر جی 10 میں منتقل کیا جائے گا۔

یہ اقدام اسلام آباد ہائی کورٹ کی موجودہ جگہ کو وفاقی آئینی عدالت کی تبدیلی کی صورت میں ہی ممکن ہو سکے گا۔

حکومت وفاقی نے آئینی عدالت کی عمارت کے حوالے سے وکلا کی متعلقہ تمام تنظیموں کو بیٹھ کر متفقہ طور پر ایک نقطے پر پہنچنے کی تجویز دی ہے۔

وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اس بارے میں کہا کہ ’وفاقی آئینی عدالت کی عمارت کے حوالے سے جلد حل نکالیں گے۔

’دو تین آپشنز ہمارے پاس موجود ہیں، میں نے بار کو کہا ہے کہ میرے ساتھ بیٹھیں، یہ فیصلہ مشاورت سے کریں گے۔‘

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ’ہائی کورٹ کو پرانی عمارت میں واپس بھیجنے کا آپشن بھی موجود ہے کیونکہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اکٹھا کر دیں۔

’ڈسٹرکٹ کورٹ اور وہاں کام کرنے والے وکلا بھی کہتے ہیں کہ وہاں بڑی عمارت ہے، شاہراہ دستور پر آئینی عدالت بٹھائیں۔‘

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ’اسلام آباد بار والے کہہ رہے ہیں کہ انہیں بھیجیں، ہائی کورٹ والے کہتے ہیں ہم ابھی سوچ میں ہیں۔ میں نے کہا ہے کہ تینوں باڈیز بار کونسل، بار ایسوسی ایشن اور ہائی کورٹ بار بیٹھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپ کے نزدیک کون سا بہتر آپشن ہے؟ اس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’میں یہاں کا رہائشی وکیل نہیں ہوں اس لیے میں اس پر شاید اس طرح رائے نہ دے سکوں۔ اس لیے متعلقہ باڈیز کو کہا ہے کہ آپ بیٹھیں اور طے کریں۔‘

یہی سوال جب وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’سرکاری عہدے دار کے طور پر نہیں وکیل کے طور پر بات کروں تو میرے لیے کچہری اور ہائی کورٹ کا اکٹھے ہونا مناسب ہوگا۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔‘

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو اپنی موجودہ جگہ پر ہی رہنا چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر واجد گیلانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی شفٹنگ کے معاملے پر فیصلہ وکلا کی مشاورت کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔

’اسی حوالے سے لینڈ مینجمنٹ والوں نے بھی کہا ہے کہ بار کونسل، ڈسٹرکٹ بار اور ہائی کورٹ کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی اس مسئلے کو حل کیا جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں جمعہ (21 نومبر) کو ایگزیکٹو ممبران کا اجلاس ہوگا جہاں متعلقہ افراد اپنی تجاویز کو حتمی شکل دیں گے اور پھر اسے جنرل باڈی میں پیش کیا جائے گا۔ یہ چند افراد کا نہیں بلکہ پوری کمیونٹی کا مشترکہ معاملہ ہے۔

بار ایسوسی ایشن کے صدر نے منتقل نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ کو منتقل کرنے کی بات کی جا رہی ہے، وہاں پہلے پہاڑی کاٹ کر جگہ بنائی گئی تھی اور وہ زمین اسلام آباد ہائی کورٹ کے نام ہے۔ یہ ایک مرتبہ ہائی کورٹ کے نام منتقل ہو چکی ہے، لہذا اب اسے تبدیل کرنا آئینی طور پر بھی آسان نہیں ہوگا۔

صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن مزید کہتے ہیں کہ بالآخر آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کو ایک ہی جگہ کام کرنا ہوگا۔

’اسی وجہ سے ہم نے تجویز دی ہے کہ اگر آپ اسلام آباد ہائی کورٹ کو شفٹ کرنا چاہتے ہیں تو وفاقی شرعی عدالت کی موجودہ عمارت کو کیوں نہیں استعمال کرتے؟ وہاں صرف تین جج کام کر رہے ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز اور مقدمات زیادہ ہیں۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ موجودہ جگہ پر ’مزید توسیع ممکن ہے۔ ہائی کورٹ کی چھت پر دو مزید فلور بن سکتے ہیں، جس سے جگہ کا مسئلہ مکمل طور پر حل ہو سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست