میانمار: عوامی دباؤ کے بعد فوجی حکومت نے سینکڑوں افراد کو رہا کر دیا

ینگون کی آنسین جیل سے رہا کیے گئے 600 سے زائد افراد میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، جن میں سے کچھ احتجاجی تحریک کے دوران اختیار کیے جانے والے تین انگلیوں کے اشارے سے اپنی خوشی کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے۔

سرکاری ٹی وی نے بتایا کہ مجموعی طور پر 628 افراد کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے (اے ایف پی)

میانمار کی عبوری حکومت ’جنتا‘ نے بڑھتی ہوئی مزاحمتی تحریک کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بدھ کو گذشتہ ماہ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے کے الزام میں قید سینکڑوں افراد کو رہا کر دیا۔

ینگون کی آنسین جیل سے رہا کیے گئے سینکڑوں افراد میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، جن میں سے کچھ احتجاجی تحریک کے دوران اختیار کیے جانے والے تین انگلیوں کے اشارے سے اپنی خوشی کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے۔

سرکاری ٹی وی نے بتایا کہ مجموعی طور پر 628 افراد کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے۔

یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ کرنے والے سینکڑوں طلبہ کو مارچ کے شروع میں حراست میں لیا گیا تھا، جب فوج نے جموریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو بے دخل کردیا تھا۔

ایک خاتون وکیل نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ بدھ کو رہا ہونے والے تمام افراد کو تین مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران حراست میں لیے گئے صرف 55 افراد کو رہا نہیں کیا گیا اور امکان ہے کہ ان کو تعزیراتی ضابطے کی دفعہ 505 (اے) کے تحت الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں تین سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

میانمار میں سیاسی قیدیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے فوجی بغاوت کے بعد کریک ڈاؤن میں 275 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جب کہ اضافی ہلاکتوں کی تصدیق ابھی تک نہیں ہو سکی۔ تنظیم نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے منگل تک دو ہزار 812 افراد کی گرفتاری یا ان کے خلاف الزامات کی تصدیق کی تھی جن میں سے 2،418 اب تک زیر حراست یا الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

فوج کی جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن سے بچنے کے لیے مظاہرین نے بدھ کو ایک نیا حربہ آزمایا، جب انہوں نے خاموشی سے ہڑتال کی اور لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ گھروں میں رہیں اور کاروبار کو ایک دن کے لیے بند رکھیں۔

ہڑتال کی کامیابی کا اندازہ لگانا مشکل تھا لیکن سوشل میڈیا صارفین نے کئی شہروں اور قصبوں سے ایسی تصاویر پوسٹ کیں جن میں گلیاں اور سڑکیں سنسان دکھائی دے رہی تھیں۔

اس ہڑتال کے حوالے سے آن لائن شائع کردہ میم میں اس خاموشی کو ’بلند چیخ‘ کہا گیا اور بتایا گیا کہ اس خاموش ہڑتال کا مقصد تحریک میں اپنی جانوں کی قربانی دینے والے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنا، مظاہرین کی توانائی کو بحال کرنا اور جنتا کے ’سب کچھ معمول پر آ گیا ہے‘ کے دعووں کو غلط ثابت کرنا ہے۔

یہ نیا حربہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے بڑھائے جانے والے تشدد کے بعد استعمال کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر منڈیالے میں منگل کو ایک سات سالہ بچی فوجی کریک ڈاؤن کے دوران ہلاک ہوگئی۔ سیاسی قیدیوں کی تنظیم نے اس بچی کی موت کو بھی ہلاک ہونے والوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

آن لائن نیوز سروس ’میانمار ناؤ‘ نے ہلاک ہونے والی بچی کی بہن  ائے چن سان کے حوالے سے بتایا: ’سات سالہ بچی کھن میو چٹ کو اس وقت ایک فوجی نے پیٹ میں گولی ماری جب وہ آنگ پن لی کے علاقے میں گھر کے اندر اپنے والد کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فائرنگ اس وقت ہوئی جب فوجی اہلکار ان کے محلے میں گھروں پر چھاپے مار رہے تھے۔ بچی کی بہن نے بتایا کہ ایک فوجی نے ان کے والد کو بھی گولی ماری، جب انہوں نے چھاپے کے دوران فوجیوں سے کہا کہ ان کے گھر پر کوئی چھپا ہوا نہیں ہے۔

اس کے بعد فوجیوں نے اچ کے 19 سالہ بھائی کو اپنے رائفل کے بٹوں سے مارا اور انہیں اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔

تنظیم نے منگل کو منڈالے میں تین ہلاکتوں کی تصدیق کی جبکہ دیگر رپورٹس کے مطابق اس روز ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا