’پاکستان، چین، روس، ایران کی ایجنسیز افغانوں کا ڈیٹا لے سکتی ہیں‘

جان ووڈورڈ ، بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر اور سی آئی اے کے سابق افسر ہیں جنہوں نے پینٹاگون کے بائیو میٹرک کلیکشن کا آغاز کیا، وہ مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیز کی امریکہ سے دشمنی کے بارے میں پریشان ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ وہ ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

عراق کی جنگی تجربہ کار میساچوسٹس کے حلقہ خدمات کی ڈائریکٹر نیشا سوریز نے کہا کہ لوگوں کو ناگوار اور دھمکی آمیز فون کالز ، واٹس ایپ میسجز مل رہے ہیں (اے پی)

دو دہائیوں کے دوران، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغان عوام کے لیے ڈیٹا بیس بنانے کے لیے سینکڑوں ملین ڈالرز خرچ کیے ہیں۔

عمدہ طور پر بیان کردہ مقصد کہا جائے تو ’امن و امان اور حکومتی احتساب کو فروغ دینا اور جنگ زدہ زمین کو جدید بنانا۔‘

لیکن طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد ڈیجیٹل آلات میں سے بیشتر بشمول شناخت کی تصدیق کے بائیومیٹرکس نظام کے بظاہر سب طالبان کے ہاتھوں میں آ چکے ہیں۔

یہ ڈیٹا بہت کم حفاظتی اقدامات کے تحت بنایا گیا تھا جس کے بازیافت ہونے کے بعد ریاست کے ہاتھ ایک نیا آلہ آ جانے کا خطرہ ہے۔ جیسے جیسے طالبان مضبوط ہوں گے، خدشات ہیں کہ اس ڈیٹا کو سماجی کنٹرول اور معلوم دشمنوں کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

اس طرح کے اعداد و شمار کو تعمیری طور پر کام میں لایا جانا تھا جن میں تعلیم کا فروغ، خواتین کو بااختیار بنانا، بدعنوانی سے لڑنا وغیرہ شامل ہیں اور یہ سب جمہوری استحکام کے بعد ہو سکتا ہے۔ اس ڈیٹا کا شکست کے بعد کیا ہو گا؟ یہ سوچ کر اسے بالکل بھی تشکیل نہیں دیا گیا تھا۔

بروکلین لا سکول کے سکالر فرینک پاسکولے کے مطابق ’یہ ایک خوفناک ستم ظریفی ہے، جہنم کا راستہ اچھے ارادوں کے ساتھ ہموار کیا گیا ہے۔‘

15 اگست کو کابل پر قبضہ ہونے کے بعد سے یہ اشارے سامنے آئے ہیں کہ امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کی شناخت اور انہیں دھمکانے کے لیے حکومتی اعداد و شمار طالبان کی کوششوں میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

عراقی جنگ کی تجربہ کار میساچوسٹس کے حلقہ خدمات کی ڈائریکٹر نیشا سوریز نے کہا کہ لوگوں کو ناگوار اور دھمکی آمیز فون کالز، واٹس ایپ میسجز مل رہے ہیں۔ ان کا ادارہ افغانستان میں پھنسے ایسے افغانوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو امریکہ کے لیے کام کررہے تھے۔

کابل میں ایک 27 سالہ امریکی کنٹریکٹر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی کارکن جنہوں نے فوج اور پولیس کی تنخواہوں کو سنبھالنے کے لیے امریکی فنڈ سے بنایا گیا ڈیٹا بیس تیار کیا انہیں وزارت دفاع میں سے فون کر کے بلایا گیا۔ وہ روپوش ہیں اور روزانہ اپنا مقام تبدیل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے شناخت نہ ظاہر کرنے کا کہا۔

طالبان کے رہنما کہتے ہیں کہ وہ انتقام میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ بین الاقوامی امداد کی بحالی اور غیر ملکی اثاثوں کو غیر منجمد کروانا ان کی ترجیح ہے۔

یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے سکالر علی کریمی ان افغانوں میں شامل ہیں جو طالبان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ڈیٹا بیس سخت بنیاد پرست لوگوں تک پہنچا دیا جائے گا جو شورش کے دوران دشمن کے ساتھیوں کو بے رحمی سے قتل کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

گذشتہ حکومت کے دوران امن مذاکرات میں شریک نادر نادری کا کہنا تھا کہ ’دنیا طالبان کی جانب  دیکھ رہی ہے کہ وہ ڈیٹا کیسے استعمال کرتے ہیں۔ تمام افغانوں اور ان کے بین الاقوامی شراکت داروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ حساس حکومتی ڈیٹا کو صرف ’ترقیاتی مقاصد‘ کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ پولیس کی جانب سے یا سماجی کنٹرول حاصل کرنے کے لیے۔‘

افغان حکومت کے ایک سینیئر سکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ افغان حکومت کے پاس سکیورٹی فورسز کے سات لاکھ سے زائد ارکان کا ڈیٹا ہے جو 40 سال پہلے کا ہے۔ اس کے 40 سے زائد ڈیٹا فیلڈز میں پیدائش کی تاریخیں، فون نمبرز، باپ اور دادا کے نام، انگلیوں کے نشانات اور آئرس سکین سمیت چہرے کے سکین شامل ہیں۔

کابل میں رشتہ داروں کی حفاظت کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سابق عہدیدار نے کہا کہ صرف بااختیار صارفین ہی اس سسٹم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

’لہذا اگر طالبان اس ڈیٹا کو حاصل نہ بھی کر سکے تو ان کی  طرف سے اسے ہیک کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی جو طالبان کا مبینہ سرپرست ہے وہ انہیں تکنیکی مدد فراہم کرسکتا ہے۔ چینی، روسی اور ایرانی انٹیلی جنس بھی ایسی خدمات فراہم کر سکتے ہیں۔‘

پینٹاگون کے بائیو میٹرکس پراجیکٹ مینجمنٹ آفس کے چیف انجینئر ولیم گریوز نے کہا کہ ’امریکی انخلا سے پہلے پورا ڈیٹا بیس ملٹری گریڈ ڈیٹا وائپنگ سافٹ ویئر سے مٹا دیا گیا تھا۔ اسی طرح، افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے 2001 سے لے کر اب تک ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے 20 سال کے ڈیٹا کو صاف کر دیا ہے۔‘

سابق سکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ ’اہم ڈیٹا بیس جو رہ گیا اس میں غیر ملکی ٹھیکیداروں کے بارے میں وسیع تفصیلات ہیں، اور وزارت اقتصادیات کا ڈیٹا بیس ہے جس میں تمام بین الاقوامی ترقیاتی اور امدادی ایجنسیز کی فنڈنگ ​​کے ذرائع مرتب کیے گئے ہیں۔ پھر اعداد و شمار ہیں۔ تقریبا 9 ملین افغانوں کے آئرس سکین اور فنگر پرنٹس بھی موجود ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس کے حصول اور سول سروس یا یونیورسٹی کا داخلہ امتحان دینے کے لیے بائیومیٹرک سکین کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک مغربی انتخابی امدادی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ واضح نہیں ہے کہ ووٹر رجسٹریشن کا ڈیٹا بیس، 80 لاکھ سے زائد افغانوں کا ریکارڈ، طالبان کے ہاتھ میں ہے یا نہیں۔

2019 کے صدارتی انتخابات کے دوران مکمل پرنٹ آؤٹ بنائے گئے تھے، حالانکہ اینٹی فراڈ ووٹر کے لیے استعمال ہونے والے بائیو میٹرک ریکارڈز جرمن ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے ادارے کے پاس محفوظ تھے۔ 2018 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد 5000 پورٹیبل بائیو میٹرک ہینڈ ہیلڈ جو کہ تصدیق کے لیے استعمال کیے گئے تھے غیر واضح طور پر غائب ہو گئے۔‘

ایک اور ڈیٹا بیس جو طالبان کو وراثت میں ملا ہے اس میں چار لاکھ 20 ہزار سرکاری ملازمین کے آئرس اور چہرے کے سکین اور فنگر پرنٹس شامل ہیں-

یہ ایک اور انسداد دھوکہ دہی کا اقدام تھا جس کی نادر نادری نے سول سروس کمشنر کے طور پر نگرانی کی۔ انہوں نے کہا کہ بالآخر اسے ای تذکیرہ ڈیٹا بیس کے ساتھ ضم کیا جانا تھا جو خواتین کی ترقی کے لیے بنایا گیا تھا۔ 

جان ووڈورڈ بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر اور سی آئی اے کے سابق افسر ہیں جنہوں نے پینٹاگون کے بائیو میٹرک کلیکشن کا آغاز کیا تھا وہ مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیز کی امریکہ سے دشمنی کے بارے میں پریشان ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ وہ ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

ووڈورڈ نے کہا کہ ’آئی ایس آئی (پاکستانی انٹیلی جنس) یہ جاننا چاہے گی کہ امریکیوں کے لیے کس نے کام کیا اور چین، روس اور ایران کے بھی اپنے ایجنڈے ہیں۔ پاس ورڈ سے محفوظ بنائے گئے ڈیٹا بیس کو توڑنے کے لیے ان ایجنٹوں کے پاس یقینی طور پر تکنیکی چپس موجود ہوں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا