اقوام متحدہ میں طالبان ’شو‘ کا کوئی فائدہ نہیں: جرمنی

ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ ’طالبان سے رابطہ رکھنا اہم ہے‘ لیکن ان کے مطابق ’اس کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک مناسب مقام نہیں ہے۔‘

21 ستمبر 2021 کی اس تصویر میں امریکی صدر جو بائیڈن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں(اے ایف پی)

جرمنی نے طالبان کی اس درخواست کی مخالفت کی ہے جس میں افغان طالبان نے اقوام متحدہ سے خطاب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

جرمنی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کے اقوام متحدہ میں ’شو‘ کا کوئی مقصد نہیں ہو گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی کریڈینشلز کمیٹی طالبان کی اس درخواست کا جائزہ لے رہی ہے جس میں انہوں نے افغانستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے خطاب کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

 خیال رہے اقوام متحدہ میں ابھی تک افغانستان کی نمائندگی اس حکومت کے سفیر کر رہے ہیں جو گذشتہ ماہ ختم ہو چکی ہے۔

جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ میں اس قسم کا شو منعقد کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ اہم چیز ٹھوس اقدامات ہیں صرف الفاظ نہیں جن میں انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق سمیت ایک شمولیتی حکومت اہم ہیں جو دہشت گردوں سے فاصلہ اختیار کرے۔‘

ہائیکو ماس کا کہنا تھا کہ ’طالبان سے رابطہ رکھنا اہم ہے‘ لیکن ان کے مطابق ’اس کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک مناسب مقام نہیں ہے۔‘

دوسری جانب ایک سئنئیر امریکی عہدیدار کے مطابق کریڈینشلز کمیٹی جس میں امریکہ بھی شامل ہیں سوموار کو جنرل اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے سے پہلے فیصلہ نہیں کرے گی۔

امریکی عہدیدار کا کہنا تھا ’اس بات کا فیصلہ کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔‘

تاحال کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔


افغانستان میں طالبان حکومت نے مخالفین اور عسکری اداروں میں موجود تمام افراد کی فہرستیں تیار کرنے اور سکرینگ کا فیصلہ کیا ہے۔ 

ان کے تازہ حکم کے مطابق تمام فوجی عہدیداروں بالخصوص فوجی ڈویژنوں کے کمانڈروں کو اپنی ٹیم کے اراکین کی تمام تر تفصیلات پر مشتمل فہرستیں تیار کرنے اور انہیں انٹیلی جنس محکموں میں جمع کروانے کا کہا گیا ہے۔

ایک دوسرے انٹیلی جنس سرکاری مراسلے، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس ہے، میں کابل اور دیگر صوبوں کے حکام سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے افراد کی فہرستیں تیار کرکے انہیں ارسال کریں جو ’بدنام اور مفسد ہیں یا داعش یا ماضی کی حکومتوں سے منسلک لوگ ہیں‘ جنہیں اب نئی انتظامیہ میں شامل کیا گیا ہے اور مسلح کیا گیا ہے۔

مانگی جانے والی تفصیلات میں مکمل شہریت، ان کے خلاف الزام اور جرم کی نوعیت، سابق حکومت میں عہدہ اور ان کا عقیدہ یعنی کیسی سوچ رکھتے ہیں۔ 

پہلے تازہ حکم نامے کے مطابق وزارت دفاع، داخلہ اور انٹیلی جنس کے ادارے میں موجود فوجی حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں کسی ایسے شخص کو اس بات کی اجازت نہ دیں جو ذاتی دشمنیوں، تنازعات، بدعنوانی، بدسلوکی، ڈکیتی اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کی وجہ سے آلودہ یا خراب کرے۔

تین اعلیٰ حکام کے دستخط سے جاری اس حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسی صورت میں جب کوئی ایسا شخص کسی بھی عسکری ادارے میں پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی اور اسے صفوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس کے کمانڈر کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان اقدامات سے بظاہر لگتا ہے کہ طالبان کی اسلامی امارات اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے اور مخالفین کی نگرانی کا انتظام کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی ان پر مخالفین پر مظالم کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے جس کی طالبان تردید کرتے ہیں۔ 

کابل پر قبضے کے بعد انہوں نے عام معافی کا بھی اعلان کیا تھا۔


طالبان اقوام متحدہ میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کے خواہش مند

افغان طالبان نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور اس کے لیے دوحہ میں مقیم اپنے ترجمان سہیل شاہین کو اقوام متحدہ میں افغانستان کا سفیر نامزد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پیر کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش کو لکھے گئے خط میں یہ درخواست کی۔

اس مراسلے، جسے روئٹرز نے دیکھا ہے، کے مطابق متقی نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوران بات کرنے کو کہا تھا۔

 

انتونیو گوتیریش کے ترجمان فرحان حق نے بھی امیر خان متقی کے خط کی تصدیق کی۔ اس اقدام سے اقوام متحدہ میں اس وقت موجود افغان سفیر غلام اسحاق زئی کے ساتھ ایک ٹکراؤ کی سی صورت حال پیدا ہوگئی، جو طالبان کی طرف سے گذشتہ ماہ معزول کی گئی افغان حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

فرحان حق نے کہا کہ اقوام متحدہ میں افغانستان کی نشست کے لیے حریف درخواست نو رکنی کمیٹی کو بھیجی گئی ہے، جس کے ارکان میں امریکہ، چین اور روس شامل ہیں۔ کمیٹی کا پیر سے پہلے اس معاملے پر ملنے کا امکان نہیں ہے، اس لیے اس بات میں شبہ ہے کہ طالبان کے وزیر خارجہ عالمی ادارے سے خطاب کریں گے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان کے سفیر کی قبولیت اس گروپ کی بین الاقوامی پہچان کے لیے ایک اہم قدم ہوگا، جس سے معاشی بدحالی کے شکار اس ملک کے لیے درکار فنڈز کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔

انتونیو گوتیریش نے کہا ہے کہ طالبان کی تسلیم کیے جانے کی خواہش ہی کے ذریعے دوسرے ممالک افغانستان میں جامع حکومت اور شہریوں کے حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے احترام کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

فرحان حق نے بتایا کہ طالبان کی جانب سے لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ ’اسحاق زئی کا مشن ختم ہو چکا ہے اور اب وہ افغانستان کی نمائندگی نہیں کر رہے۔‘

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے قواعد کے مطابق جب تک اسناد کمیٹی کوئی فیصلہ نہیں کرلیتی، اسحاق زئی نشست پر برقرار رہیں گے۔ فی الحال وہ 27 ستمبر کو اجلاس کے آخری دن سے خطاب کرنے والے ہیں، لیکن یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ طالبان کے خط کے تناظر میں کوئی ملک اعتراض کر سکتا ہے یا نہیں۔

اس کمیٹی کا اجلاس عموماً اکتوبر یا نومبر میں ہوتا ہے، جس کے دوران سال کے اختتام سے قبل جنرل اسمبلی کو منظوری کے لیے رپورٹ پیش کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کے تمام اراکین کی اسناد کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سفارت کاروں نے بتایا کہ کمیٹی اور جنرل اسمبلی عام طور پر اسناد پر اتفاق رائے سے کام کرتی ہیں۔

کمیٹی کے دیگر ارکان میں بہاماس، بھوٹان، چلی، نمیبیا، سیئرا لیون اور سویڈن شامل ہیں۔

جب طالبان نے آخری بار 1996 اور 2001 کے درمیان افغان حکومت کا خاتمہ کیا تھا تو معزول حکومت کے سفیر ہی اقوام متحدہ کے نمائندے رہے تھے کیونکہ اسناد کمیٹی نے مذکورہ نشست پر حریف دعوؤں پر اپنا فیصلہ موخر کر دیا تھا۔

کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ’یہ فیصلہ اس لیے موخر کردیا گیا ہے کیونکہ افغانستان کے موجودہ نمائندے اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ ہیں اور جنرل اسمبلی کے کام میں حصہ لیتے رہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا