’میرے گھٹنوں تک لمبے بال تھے جو ابو اور چچا نے مل کر کاٹے‘

ملتان کے علاقے شجاع آباد میں پولیس کو چھٹی جماعت کی ایک طالبہ کے والد اور چچا کی تلاش ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس کے بال کاٹ ڈالے۔

صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کے علاقے شجاع آباد میں پولیس کو چھٹی جماعت کی ایک طالبہ کے والد اور چچا کی تلاش ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس کے بال کاٹ ڈالے۔

تھانہ شجاع آباد کے ہیڈ کانسٹیبل قیصر خلیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزمان جائے وقوعہ سے فرار ہوگئے، تاہم والدہ کی مدعیت میں ایف آئی آر درج  کر لی گئی ہے اور پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے اور وہ جلد گرفت میں ہوں گے۔

ملتان پولیس کے ترجمان فیاض حسین نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اقراء کے دادا غلام سرور کو کچھ دیر پہلے گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ اقراء کے والد اور چچا کی تلاش جاری ہے۔‘

متاثرہ لڑکی اقرا کی والدہ رانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی اختر کھوکھر سے 13 سال پہلے طلاق ہوئی تھی اور وہ اپنے بھائی اور بھابھی کے ساتھ رہتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ قبل اقرا کے والد نے عدالت کے ذریعے بچی کو ان سے واپس لے لیا تھا۔ رانی کے مطابق اقرا کو پڑھنے کا شوق تھا اور چونکہ وہ غریب ہیں تو یہ سوچ کر بیٹی کو والد کے حوالے کردیا کہ وہ اس کی بہتر دیکھ بھال کر سکیں گے اور والد سے کہا کہ اسے پڑھائی جاری رکھنے دیں۔

ان کے مطابق اختر خود تو بہالولپور میں ایک فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں مگر اقرا کو جلال پور میاں پو پھیلووال میں ان کی دادی کے پاس چھوڑ دیا۔ ’کچھ روز بعد اقرا نے دادی کے گھر سے مجھے فون کیا اور بتایا کہ نہ وہ سکول جا رہی ہے، نہ پڑھ رہی ہے بلکہ اس سے گھر کے کام کاج کروائے جارہے ہیں۔ وہ تندور پر روٹیاں لگاتی ہے اور اس پر تشدد بھی کیا جارہا ہے، اس لیے میں اسے وہاں سے لے جاؤں۔‘

رانی کے بتایا کہ انہوں نے اقرا کے والد کو فون کیا اور ان سے جھگڑا کیا کہ وہ اقرا کو اپنے ساتھ رکھیں اور اسے سکول داخل کروائیں۔ اختر پھر اقرا کو بہاولپور لے گئے اور ایک خاتون کے گھر پر رکھا، تاہم اقرا نے پھر اپنی والدہ کو فون کر کے بتایا کہ وہ وہاں خوش نہیں اور نہ ہی سکول جا رہی ہے۔

رانی کہتی ہیں کہ عدالت کے حکم کے مطابق وہ اقرا کو اس کے والد کی مرضی کے بغیر واپس نہیں لے سکتی تھیں، اس لیے اس سے بہاولپور ملنے چلی گئیں مگر انہیں اس گھر کا ماحول اچھا نہیں لگا جہاں اقرا کو ٹھہرایا ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اختر سے درخواست کی کہ اقرا کو واپس دادی کے گھر بھیج دیں اور اس کی تعلیم کا سلسلہ شروع کریں، مگر پھر وہ 22 ستمبر کو اقرا کو ان کے پاس شجاع آباد چھوڑ کر چلے گئے۔

رانی کے مطابق: ’23 ستمبر کو اختر کھوکھر اور ان کے بھائی اللہ رکھا کھوکھر میرے گھر آئے۔ میں کسی کام سے باہر نکلی ہوئی تھی۔ انہوں نے اقرا کو ساتھ چلنے کا کہا لیکن اقرا نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ میرے پاس ہی رہنا چاہتی ہے اور آگے پڑھنا چاہتی ہے لیکن اس کے والد اور چچا نے اسے مارا پیٹا اور اس کے بال قینچی سے کاٹ دیے۔‘

رانی نے بتایا کہ شور سن کر اہل محلہ اور وہ موقع پر پہنچ گئیں جس پر اختر نے انہیں اور اقرا کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں اور کہا کہ وہ اقرا کو ’پڑھائی لکھائی کرنے کا مزہ چکھائیں گے اور اسے جلد اپنے ساتھ لے جائیں گے۔‘

اقرا کی والدہ نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ اقرا کا چچا علاقے کا اثرو رسوخ والا آدمی ہے اور انہیں ڈر ہے کہ وہ اس کیس میں پولیس پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ 

اقرا نے بتایا کہ وہ بہت خوفزدہ ہیں اور والد کے ساتھ نہیں جانا چاہتیں۔ ’مجھے آگے پڑھنا ہے اور کچھ بننا ہے۔ میرے گھٹنوں تک لمبے بال تھے جو ابو اور چچا نے مل کر کاٹے۔ میں تو سو رہی تھی جب انہوں نے میرے بال کاٹے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ قینچی جب بالوں کو لگی تو ان کی آنکھ کھلی۔ ’میں نے بہت روکا لیکن انہوں نے سنا ہی نہیں اور مجھے مارنے اور گھسیٹنے لگے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں سکول کیسے جاؤں گی۔ اب مجھے سکول جاتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے اپنی والدہ کے ساتھ رہنا ہے اور اپنی تعلیم کو جاری رکھنا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان