کوپ 26: کوئلے کے تنازعے پر ماحولیاتی معاہدہ کیسے ڈوبتے ڈوبتے بچا

بھارت، چین اور کوئلے کے ذخائر سے مالامال کچھ دیگر ترقی پذیر ممالک معاہدے پر اتفاق سے انکاری تھے۔

یہ قریب قریب ایک سفارتی بحران تھا۔ دو ہفتوں کے کڑے مذاکرات کے بعد گلاسگو میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی پر کانفرنس کوپ 26 کے صدر آلوک شرما نے گلاسگو کلائمٹ معاہدے کا اعلان کرنے کے لیے 200 ممالک کے نمائندوں کا آخری اجلاس بلوایا تھا۔  

اس معاہدے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ گلوبل وارمنگ کے سنگین ترین اثرات کو روکنے کے لیے جامع اقدامات طے کیے جائیں۔

کانفرنس میں مندوبین کے درمیان مذاکرات کا مقصد 2015 کے تاریخی پیرس معاہدے کے تحت عالمی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے قبل سے پہلے کے درجہ حرارت کے مقابلے میں 1.5 اور زیادہ سے زیادہ دو سیلسیئس پر محدود رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کا تعین کرنا تھا۔

کوئلے، تیل اور قدرتی گیس جیسے فاسل فیول کے استعمال سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس اجلاس کا مقصد فیولز کے استعمال کو کم کرکے ممالک کے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے میں مزید تیزی لانے کو یقینی بنانا تھا۔

مندوبین کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ ترقی یافتہ ممالک سے ایسے غیر ترقی یافتہ ملکوں کے لیے فنڈ کو یقینی بنائیں، جنہیں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خشک سالی، سیلابوں اور سطح سمندر میں اضافے کے سبب طوفانوں کے انتہائی خطرے کا سب سے زیادہ سامنا ہے۔

دو ہفتے کی کانفرنس میں مذاکرات ویسے ہی اپنے طے شدہ وقت سے ایک دن آگے تک جاری رہ چکے تھے۔ ہفتے کو کوپ 26 کے ہال میں جمع مندوبین تصاویر لے رہے تھے۔ ان میں سے کئی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ کوئلے کے استعمال پر ایک تنازع حل نہیں ہوا تھا اور اب وہ معاہدے کی راہ میں آڑے آنے والا تھا۔

بھارت، چین، اور کوئلے کے ذخائر سے مالامال کچھ اور ترقی پذیر ممالک معاہدے پر اتفاق سے انکاری تھے۔ انہیں معاہدے میں کوئلے کے استعمال کے بارے میں درج الفاظ منظور نہیں تھے، جس میں حکومتوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کوئلے کے اپنے استعمال کو ’فیز آؤٹ‘ (یعنی مرحلہ وار ختم) کریں۔ ان ممالک کے خیال میں یہ مطالبہ غیرمنصفانہ تھا کیونکہ اس سے ان کی معاشی ترقی کو نقصان ہو سکتا ہے۔

امریکہ کے خصوصی ماحولیاتی سفیر جان کیری کمرے میں سب سے مل جل رہے تھے کہ انہیں چینی ہم منصب شیے ژین ہوا سے بات کرتے ہوئے اس معاملے کی بھنک پڑی۔

دو دن قبل ہی ان دونوں نے ایک مشترکہ بیان سے کانفرنس کا مورال بڑھایا تھا، جس میں چین نے اپنے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اقدامات کو مزید تیز کرنے کا عہد کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مصروف ہال میں کھڑے کیری نے شیے سے کہا: ’آپ نے تو اگلے 20 سالوں میں کوئلے کو مرحلہ وار ختم کرنا ہے۔ آپ نے ہمارے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔‘

اپنے متجرم کے ذریعے شیے نے جواب دیا: ’ہم نے فیز ڈاؤن (مرحملہ وار کم) کرنے کا کہا تھا۔‘

دوسرے ممالک کے مندوب سیشن کے آغاز کا انتظار کر رہے تھے اور کچھ لمحوں بعد ہی کیری اور شیے، بھارت اور یورپی یونین کے اپنے ہم منصبوں سے نجی ملاقات کے لیے کمرے سے چلے گئے۔  

جب شیے واپس آئے انہوں نے روئٹرز کے ایک رپورٹر کو بتایا کہ ’ہمارا معاہدہ ہو گیا ہے،‘ اور تھمبز اپ دیا۔

جیسے ہی صدر آلوک شرما نے اجلاس کا آغاز کیا اور معاہدے کی منظوری کے عمل کو شروع کیا، چین اور بھارت نے مداخلت کی۔

وہ بھارت تھا جس نے آخری لمحے میں تجویز دی۔ بھارتی وزیر ماحولیات بھوپندر یادو نے کہا: ’کوئلے کا مرحلہ وار اختتام، مرحلہ وار کمی ہوگی۔‘

ایسا لگا کہ پوڈیم پر کھڑے آلوک شرما رونے والے ہیں۔ انہوں نے مندوبین سے معذرت کی اور پھر پوچھا کہ یہ تجویز قابل قبول ہے؟

میکسیکو اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک کی جانب سے تنقید اٹھی جن کا خدشہ تھا کہ ’مرحلہ وار کمی‘ کے الفاظ کوئلے کے لامحدود استعمال کی راہ کھولیں گے، مگر کوئی بھی بغیر معاہدے کے گلاسگو سے جانے کو تیار نہیں تھا۔

غیر مطمئن سفیروں کو اپنے تاثرات کے اظہار کی اجازت دی گئی۔ پھر شرما نے تمام مندوبین سے گزارش کی کہ اسے منظور ہونے دیا جائے۔ کسی نے اعتراض نہیں کیا اور اس طرح معاہدہ منظور ہوا۔

بعد میں جب صحافیوں نے شرما سے ان کے جذباتی ہو جانے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ’میں پچھلے تین دن میں بس چھ گھنٹے سویا تھا۔ ایک طرح سے یہ جذباتی لمحہ تھا، کیونکہ ہم ایک ساتھ، ایک ٹیم کے طور پر، ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے، جو شاید بہت لوگوں کو لگتا تھا کہ ہم نہیں کر سکیں گے۔‘

سمجھوتوں سے بھرے معاہدے میں یہ ایک اور سمجھوتا تھا۔

جان کیری، جنہوں نے اس معاہدے کو عمل میں لانے میں اہم کردار ادا کیا، کے نزدیک یہ وہ سمجھوتا تھا جس سے گلاسگو کلائمٹ معاہدہ ممکن ہوا۔

انہوں نے کہا: ’اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو معاہدہ نہیں ہونا تھا۔‘


اس رپورٹ میں ایجنسیوں کی معاونت شامل ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات