کمرشل بی بی سی ناکام ہو جائے گا: سربراہ بی بی سی

برطانوی حکومت نے دو سال تک ٹی وی لائسنسنگ فیس نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے بی بی سی کی فنڈنگ منجمد رہے گی۔ اس اقدام کو وزیراعظم بورس جانسن کے ’پارٹی گیٹ‘ سکینڈل سے توجہ ہٹانے کا ایک حربہ اور ’ثقافتی توڑ پھوڑ‘ قرار دیا جارہا ہے۔

بی بی سی کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی، جو جارج اینٹ وسٹل کے استعفیٰ کے بعد تعینات ہوئے تھے، 11 نومبر 2012 کو سینٹرل لندن کے نیو براڈکاسٹنگ ہاؤس پہنچنے پر (فائل تصویر: اے ایف پی)

برطانوی حکومت نے دو سال کے لیے اپنے نشریاتی ادارے بی بی سی کے فنڈز منجمد کرکے اس بات پر بحث کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ کیا یونیورسل لائسنس فیس (ٹی وی رکھنے والے گھرانوں کی سالانہ فیس) جاری رہنی چاہیے۔

اس اقدام کو وزیراعظم بورس جانسن کے ’پارٹی گیٹ‘ سکینڈل سے توجہ ہٹانے کا ایک حربہ اور ’ثقافتی توڑ پھوڑ‘ قرار دیا جارہا ہے۔

بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ خالصتاً تجارتی بنیادوں پر فنڈز حاصل کرنے کی صورت میں ادارہ عالمی برطانوی سامعین تک نشریات اس طریقے سے نہیں پہنچا پائے گا جس طرح اب پہنچا رہا ہے۔

واضح رہے کہ بورس جانسن ملک کے پہلے کرونا لاک ڈاؤن کے دوران اپنی سرکاری رہائش گاہ پر شراب پارٹی میں شرکت کرنے کے اعتراف کے بعد شدید تنقید کی زد میں ہیں اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کلچر سیکرٹری نیڈین ڈوریس نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ اگرچہ حکومت 100 سال پرانی برطانوی ’مشعل‘ کو ’تباہ‘ نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ ایسے وقت میں زیادہ رقم وصول نہیں کر سکتی جب گھرانے بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور توانائی کے بلوں کی زد میں ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق نیڈین ڈوریس نے اراکین پارلیمنٹ کو بتایا کہ بی بی سی نے موجودہ تصفیے کے اختتام تک فیس کو 180 پاؤنڈز سے بڑھانے کے لیے کہا تھا، لیکن اس کی بجائے اسے اپریل 2024 تک 159 پاؤنڈز پر منجمد کر دیا جائے گا۔

تعلیم، معلومات اور تفریح ​​کی فراہمی کے لیے تخلیق کیے گئے بی بی سی کو ہمیشہ اعلیٰ معیار کی خبروں، ڈراموں اور دستاویزی فلموں کے لیے دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن حالیہ برسوں میں یہ برطانیہ کے سیاسی اور ثقافتی تنازعات کو درست انداز میں کور کرنے سے قاصر رہا ہے، خاص طور پر بریگزٹ کے بارے میں۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا لندن میں مرکوز میٹروپولیٹن نقطہ نظر ملک کے بڑے حصے میں پنپنے میں ناکام ہے۔

حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی رکن نیڈین ڈوریس نے کہا کہ بی بی سی کو تباہ کرنا کسی کا ارادہ نہیں ہے۔ ’یہ ایک روشن مینار ہے۔‘

دوسری جانب بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور چیئرمین رچرڈ شارپ نے اپنے بیان میں اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فنڈز منجمد کرنے سے لائسنس فیس ادا کرنے والوں پر اثر پڑے گا۔

بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی کا مزید کہنا تھا کہ خالصتاً تجارتی بنیادوں پر فنڈز حاصل کرنے کی صورت میں ادارہ عالمی برطانوی سامعین کو نشریات اس طریقے سے نہیں سنوا پائے گا جس طرح اب سنوا رہا ہے۔
انہوں نے بی بی سی ریڈیو سے بات چیت میں کہا کہ ادارے کی جانب سے تجارتی ماڈل اپنانے کی صورت میں معاشرہ ایک قیمتی شے سے محروم ہو جائے گا۔ ٹم ڈیوی کے بقول: ’یہ (بی بی سی) برطانوی عوام اور تمام برطانوی عوام کی خدمت کر رہا ہے۔ یہاں عالمگیریت کا اصول قطعی طور پر زیر بحث ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کیا یہ تجارتی سرگرمی ہو سکتی ہے؟بلاشبہ یہ تجارتی سرگرمی ہو سکتی ہے لیکن  وہ کچھ نہیں ہو گا جو اس وقت ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تصفیے کی صورت میں بی بی سی کو ساڑھے 28 کروڑپاؤنڈ  کے خسارے کا سامنا ہو گا جس کی بنا پر چند سروسز بند کرنی پڑیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی بی سی جن برادریوں کے لیے جو نشریات پیش کرتا ہے ان میں ان سب کی عکاسی ہونی چاہیے۔ تیزی سے جانب ہوتی دنیا میں غیرجانبدار رہنا مشکل کام ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی سے بچاؤ کے لیے بی بی سی کی فنڈنگ میں کٹوتی کی ضرورت ہوگی، جس میں عالمی، قومی اور مقامی ریڈیو، آن لائن مواد اور نشریات اور آن ڈیمانڈ ٹیلی ویژن شامل ہیں۔

کلچر کے لیے حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کی ترجمان لوسی پاول نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ بی بی سی کی فنڈنگ ​​روکنا برطانوی عوامی زندگی کے سب سے بڑے اداروں میں سے ایک پر حملہ ہے۔ انہوں نے ڈوریس پر ’ثقافتی توڑ پھوڑ‘ کا الزام عائد کیا۔

منجمد فنڈز

کرونا وبا کے دوران بی بی سی کے نیوز بلیٹنز 20 سالوں میں سب سے زیادہ دیکھے گئے اور یہ اپنے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد ہے، لیکن ادارے نے اعتراف کیا ہے کہ غیر جانبدار رہنے کے لیے اسے مزید کام کی ضرورت ہے۔

نئے معاہدے کے تحت لائسنس فیس (تمام ٹیلی ویژن کے مالک گھرانوں پر لاگو سالانہ فیس) 2024 تک ہر سال 159 پاؤنڈ (217 ڈالر) پر منجمد کر دی جائے گی جبکہ چار سال تک یہ مہنگائی کے مطابق بڑھ سکے گی۔

ڈوریس نے کہا کہ 2028 اور اس کے بعد لائسنس فیس کے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ سوالات پوچھے جانے کی ضرورت ہے، وہ بھی اس وقت جب عوام نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم جیسے کئی پلیٹ فارمز کو سبسکرائب کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس حوالے سے ایک بحث شروع کر رہی ہیں اور ابھی تک اس کے متبادل کے حوالے سے تجزیہ نہیں کیا گیا ہے۔

تاہم اتوار کو انہوں نے ٹویٹ کیا کہ لائسنس فیس کا یہ اعلان ’آخری‘ ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ دن ختم ہو جائیں گے جب بوڑھے لوگوں کو ادائیگی نہ کرنے پر دھمکیاں دی جا سکتی تھیں۔

انہوں نے کہا: ’یہ 2022 ہے، 1922 نہیں۔ ہمیں ایک ایسے بی بی سی کی ضرورت ہے جو آگے کی طرف دیکھے اور جدید نشریات کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی