امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس نے اپنی کم از کم 70 فیصد فوجی طاقت کو جمع کر لیا ہے جس سے صدر ولادی میر پوتن رواں ماہ کے وسط تک یوکرین پر پوری طاقت سے حملے کا حکم دے سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے (اے پی ایسوسی ایٹڈ پریس) کے مطابق امریکی اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جو اشارے مل رہے ہیں ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روسی صدر چند ہفتوں میں یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم اس حملے کی شدت ابھی واضح نہیں ہے۔
تاہم انہوں نے زور دیا کہ ’مسٔلے کا سفارتی حل بھی ممکن ہے۔‘
امریکی حکام کی جانب سے بیان کیے گئے اندازوں کے مطابق روس کی سٹریٹجک نیوکلیئر فورس ایک مشق، جو عام طور پر ہر موسم خزاں میں منعقد کی جاتی ہے، اب فروری کے وسط سے مارچ کے لیے دوبارہ ترتیب دی گئی ہے۔
امریکی انٹیلی جنس حکام بھی حملے کے لیے ممکنہ طور پر اسی عرصے کا اندازہ لگا رہے ہیں۔
تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ممکنہ جنگ میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال شامل ہو گا یا نہیں لیکن روسی مشق، جس میں ممکنہ طور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے تجربات بھی شامل ہیں، کو ایک سخت پیغام کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس کا مقصد مغرب کو یوکرین کے معاملے میں مداخلت سے باز رکھنا ہے۔
امریکی حکام کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں کئی بار اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ روس کے حملے کی صورت میں یوکرین کی فوج نسبتاً تیزی سے مغلوب ہو سکتی ہے تاہم ماسکو کے لیے اس قبضے کو برقرار رکھنا اور ممکنہ شورش سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔
ہفتے کو امریکی جریدوں نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ ’امریکی حکام خبردار کر رہے ہیں کہ پوری طاقت سے حملے کرنے پر روس کیف پر فوری قبضہ کر سکتا ہے اور اس جنگ میں ممکنہ طور پر 50 ہزار ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔‘
ایک امریکی اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ان اندازوں کی تصدیق کی ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی ایجنسیوں نے ان اعداد و شمار کا تعین کیسے کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کی گئی کہ یہ حملہ کس طرح آگے بڑھے گا اور یہ کہ جنگ کے انحراف کی صورت میں انسانی ہلاکتیں غیر یقینی ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ وہ جنگ کے لیے امریکی فوجیوں کو یوکرین نہیں بھیجیں گے تاہم وہ اضافی فوجی دستے پولینڈ اور رومانیہ بھیجنے کا حکم دے چکے ہیں تاکہ ان نیٹو اتحادیوں کو یقین دلایا جائے کہ واشنگٹن نیٹو ممالک کے خلاف روسی جارحیت کا جواب دینے کے لیے اپنے معاہدے کو پورا کرے گا۔
یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے لیکن امریکی اور اتحادی ممالک کیف کو فوجی مدد اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین پر روس اور مغربی ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافے کے بعد امریکی کمک میں شامل فوجی جرمنی اور پولینڈ پہنچ چکے ہیں۔
امریکی ملٹری کی یورپین کمانڈ کے مطابق ان فوجیوں کو بھیجنے کا مقصد یوکرین کی سرحد پر روس کی موجودگی کے تناظر میں مشرقی یورپ اور جرمنی میں نیٹو اتحاد کے موجودگی کو مزید مضبوط کرنا ہے۔
کمانڈ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’18ویں ایئربورن کور کے فوجی ویزباڈن پہنچ چکے ہیں۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان فوجیوں کی آمد کا مقصد پولینڈ روانہ کیے جانے والے 1700 پیراٹروپرز کے لیے جرمنی میں ہیڈکوارٹرز قائم کرنا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’پینٹاگون کے اعلان کے بعد یورپ بھیجے جانے والے یہ فوجی 2000 فوجیوں کی کھیپ کا پہلا دستہ ہیں۔ جن کا مقصد امریکہ کی جانب سے اپنے نیٹو اتحادیوں کو حمایت فراہم کرنا ہے۔‘
پینٹاگون کے مطابق جرمنی کے علاقے ولسیک میں تعینات سٹرائیکر سکواردن کے لگ بھگ ایک ہزار فوجیوں کو رومانیہ بھیجا جائے گا جب کہ 82ویں ایئر بورن ڈویژن کے 1700 فوجیوں کو پولینڈ روانہ کیا جائے گا۔
ان کے علاوہ تین سو امریکی فوجیوں کو بھی جرمنی روانہ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ روس نے مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو مشرقی یورپ سے اپنے فوجی اور ہتھیار ہٹا لے جبکہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر بھی پابندی عائد کی جائے۔
امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی روس کے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روس کے ساتھ اعتماد کی بحالی سمیت ہتھیاروں کے کنٹرول جیسے معاملات پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔