مجھ جیسے جنوبی ایشیائی نوجوانوں کے لیے تقسیم کا کیا مطلب ہے؟

میں ایک ٹوٹی پھوٹی قوم کے لیے روتی ہوں، بزرگوں کی صدمے سے دوچار لیکن سخت جان نسل کے لیے روتی ہوں، میں مذہبی تقسیم کے لیے روتی ہوں جو آج بھی برقرار ہے، اور ایک بھولی ہوئی تاریخ کے لیے جس نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو بدل ڈالا۔

24 اکتوبر 2021 کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان آئی سی سی ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کرکٹ میچ کے آغاز سے قبل دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کے باہر شائقین خوشی منا رہے ہیں(فائل تصویر: اے ایف پی)

آج تقسیم ہند کے75 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ’تاریخ میں سب سے بڑے پیمانے پر ہجرت‘ کو 75 سال ہو گئے، جس میں ایک طرف برصغیر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا، تو دوسری جانب خاندان، دوست اور برادریاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، زندگی بھر کی جدائیاں شروع ہوئیں۔

ایک نوجوان برطانوی پاکستانی کے طور پر، یہ دن میرے لیے ملے جلے جذبات کو جنم دیتا ہے۔ میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ برصغیر برطانوی سلطنت کے زیرِ تسلط سینکڑوں سالوں کی مشکلات اور معاشی زوال سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، لیکن میرا دل ان ہولناکیوں کے لیے روتا ہے جو اس کے فوراً بعد رونما ہوئیں۔

ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے اس میں بہت سے رخنے ہیں اس لیے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کبھی ایک قوم تھے۔

یہ ایک شاندار تاریخ، ثقافتی روایات، مختلف مذاہب اور زبانوں کی قوم تھی۔ تمام عقائد اور پس منظر کے لوگ عام طور پر ایک ساتھ رہتے تھے، اور یہ ملک دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک تھا، جس میں مختلف قسم کی مقبول اشیا برآمد کی جاتی تھیں جیسے کہ مصالحے اور ریشم، اور اس کے دوسرے ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔

لیکن پھر، 1500 کی دہائی میں، متعدد یورپی طاقتوں نے ساحلی تجارتی بستیوں کے ذریعے ہندوستان کے مختلف حصوں پر قبضہ جمانا شروع کیا۔ 1600  کی دہائی سے برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی ایک نوآبادی طاقت کے طور پر کھڑی ہو گئی۔ یہ ایک تجارتی کارپوریشن تھی جسے بعد میں برطانوی سلطنت نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے اقتدار کے ساتھ ہی ہندوستان کے خاتمے کا آغاز شروع ہو گیا۔

ایک تجارتی کارپوریشن کے طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے خطے میں اپنے تسلط کے دوران بدعنوانی کی، اور غلاموں کے ذریعے مزدوری، تباہ کن ٹیکسوں، اور یہاں تک کہ تشدد سے کام لینے پر بھی دریغ نہیں کیا۔ اس کے طور طریقوں میں لوگوں کو شدید گرمی میں ان کی پیٹھ پر پتھر باندھ کر کام کرنے پر مجبور کرنا، اور لوگوں کو جانوروں کی دموں سے باندھ کر سڑکوں پر گھسیٹنا شامل تھا۔

ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر، برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کی بنیاد ڈالی ۔ اس نے ہندوستانیوں کو مذہبی شناخت کے لحاظ سے درجوں میں تقسیم کر دیا، جو کہ ہندوستان جیسے رنگارنگ برادریوں سے تعلق رکھنے والے ملک کی ضرورت سے زیادہ سہل پسند درجہ بندی تھی۔ اس کے علاوہ بنگال کے قحط جیسے مظالم اسی کے اقتدار کے دوران پیش آئے، جس میں تقریباً 40 لاکھ لوگ مارے گئے کیونکہ خوراک اور وسائل کو جدید بنگلہ دیش اور مشرقی انڈیا سے چھین کر برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ یہی نہیں، بلکہ وزیراعظم ونسٹن چرچل نے ہندوستانیوں کو ’حیوانی مذہب والے حیوان‘ قرار دیا اور یہ کہا کہ ہندوستان ’خرگوشوں کی طرح افزائشِ نسل کرتے ہیں۔‘

دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں آنے والے مالی دباؤ سے برطانیہ کو احساس ہو گیا کہ اپنی نوآبادی کو وہ مزید اپنے قبضے میں نہیں رکھ سکتا۔ برطانوی حکومت نے جون 1947 میں اعلان کیا کہ وہ اگست تک ہندوستان سے رخصت ہو جائے گی، اور یہ کہ ملک مسلم اکثریتی پاکستان اور ہندو اکثریتی ہندوستان میں الگ ہو جائے گا۔

یہ مسلم رہنماؤں کی درخواست تھی کیوں کہ انہیں احساس تھا کہ برطانیہ نے جس مذہبی نفرت کو پروان چڑھایا ہے، اس کے زخم مندمل نہیں ہو سکتے۔ سیرل ریڈکلف نامی ایک برطانوی وکیل، جو کبھی ہندوستان نہیں گیا تھا، اسے محض چند ہفتوں میں دو ملکوں کے درمیان لکیر کھینچنے کا کام سونپا گیا۔ آزادی کے ساتھ ہی ناقابل تصور تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

دو کروڑ کے قریب لوگ نئی کھینچی گئی سرحدوں کو عبور کرنے کے لیے لڑکھڑاتے ڈگمگاتے چلے جا رہے تھے، خاندان اور برادریاں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس لڑائی میں دو لاکھ سے 20 لاکھ کے درمیان لوگ مارے گئے۔

لوگوں کی ٹرینیں لاشوں سے بھری ہوئی پہنچنے لگیں۔ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی عصمت دری کی گئی جس سے بہت سی دوسری خواتین تشدد کے خوف سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوئیں۔ گلیاں خون سے بھری ہوئی تھیں۔ تقسیم کے دوران مارے جانے والوں میں میرے پردادا بھی شامل تھے، جنہیں ان کے خاندان کی آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتارا گیا جب وہ پنجاب کو پار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

جیسا کہ میں اس واقعے پر غور کرتی ہوں، تو میں صرف یہ تصور کر سکتی ہوں کہ میری پرنانی، میری نانی اور ان کے بہن بھائیوں پر کیا گزری ہوگی۔ کاش میں اپنی نانی سے بات کر پاتی، جو اس وقت گزر گئی تھیں جب میں 11 سال کی تھی۔ کاش میں ان سے بات کر پاتی، ان کے خاندان کی زندگی کے بارے میں، اور ان سے تقسیم سے پہلے اور بعد کے واقعات کے بارے میں دریافت کرتی۔ کاش میں اس کے صدمات کے بارے میں کھل کر ان سے بات کرتی اور انہیں کھل کر بات کرنے دیتی، بجائے اس کے وہ انہیں اندر اندر ہی اندر سہہ کر باہر سے سخت بننے کی کوشش کرتیں۔ کاش میں انہیں دکھا سکتی برطانوی جنوبی ایشیائی برادری سے تعلق رکھنے والی نئی نسل میں کس طرح ایک بار منقطع تعلقات کو بازیاب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تقسیم کی وجہ سے پیدا ہونے والا نسل ہا نسل گہرے صدمے نے بلاشبہ جنوبی ایشیائی باشندوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ اب کہیں 75 سال گزرنے کے بعد جا کر لوگ ان واقعات کی ہولناکیوں اور اپنے خاندانوں پر ان کے اثرات کے بارے میں اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ لیکن جوں جوں مجھے تقسیم کے واقعات کے بارے میں علم ہوتا جا رہا ہے، میں رونے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتی۔

میں ایک ٹوٹی پھوٹی قوم کے لیے روتی ہوں، صدمے سے دوچار مگر ثابت قدم بزرگوں کے لیے روتی ہوں۔ میں ان عورتوں کے لیے روتی ہوں جو زیادتی کا شکار ہوئیں۔ میں مذہبی تقسیم پر روتی ہوں جو آج بھی برقرار ہے، اور انسانوں کی بنائی ہوئی سرحدوں کے اثرات پر روتی ہوں۔ یہ ایک بھولی ہوئی تاریخ جس نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر اثر ڈالا۔

مجھے برطانوی سلطنت پر غصہ ہے۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے۔ میں ایک ایسے ادارے پر کیسے فخر کر سکتی ہوں جو لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بنا۔ مجھے اس کے جرائم کی سرکاری طور پر تسلیم نہ کیے جانے اور متاثرہ افراد کے لیے کو دیے جانے والے قابل رحم معاوضے پر غصہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چاہے وہ کشمیر کا خطہ ہو ، جہاں اس وقت ایک انسانی بحران جنم لے رہا ہے، یا انڈیا میں، جہاں مسلم اقلیتوں کو تشدد اور سیاسی امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یا پاکستان میں، جہاں مذہبی اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تقسیم کی نوآبادیاتی وراثتیں زندہ رہتی ہیں۔ ان قوموں میں درپیش مصائب میں، اور اس نفرت میں جو اس حقیقت کے باوجود موجود ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ کبھی پڑوسی، رشتہ دار اور آپس میں جڑی ہوئی برادریوں کے رکن تھے۔

لیکن مستقبل کو دیکھتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہوتا ہے کہ ایک کمیونٹی کے طور پر، نوجوان برطانوی جنوبی ایشیائی آج ان ثقافتی اور مذہبی رشتوں کو پھر سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو تقسیم سے ٹوٹ گئے تھے۔

ہم اپنے ملکوں کی تاریخ کے بارے میں جاننے کا ذمہ اپنے اوپر لے رہے ہیں۔ ہم فنونِ لطیفہ، موسیقی یا ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے، سکولوں میں نہیں بلکہ خود پڑھ کر ان تعلقات کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو تقسیم سے پہلے موجود تھے، اور ایک وسیع کمیونٹی کے طور پر ایک بہتر مستقبل کے لیے مل کر کام کرنے میں ہمارے معاون ہیں۔

برطانوی سلطنت نے ہندوستان کے ساتھ جو کچھ کیا اور اس نے زندگی بھر کی تقسیم کے شعلے بھڑکانے کی کوشش کی اس کے باوجود ہمیں آپس میں جوڑنے والی باتیں زیادہ ہیں، بہ نسبت جدا کرنے والی چیزوں کے۔ اور یہ وہ چیز ہے جس میں 75 سال بعد یاد کر رہی ہوں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر