شہباز، مریم کی بریت پرانے نیب قوانین کے تحت ہوئی: وزیر قانون

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے بات کرتے وزیرقانون کا کہنا تھا کہ ان رہنماؤں نے نیب کے نئے قوانین کا فائدہ نہیں لیا اور جو مقدمے باقی ہیں وہ آج بھی پرانے قوانین کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔

اس موقعے پر وزیرقانون نے کہا کہ نیب کے اختیارات بہت زیادہ تھے لیکن چوائس پر کیسز بنائے گئے(سکرین گریب)

وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز اور احسن اقبال کی نیب مقدمات میں بریت پرانے قوانین کے تحت ہوئی ہے۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے بات کرتے وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ’‘ان رہنماؤں نے نیب کے نئے قوانین کا فائدہ نہیں لیا اور جو مقدمے باقی ہیں وہ آج بھی پرانے قوانین کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’نیب کے اختیارات بہت زیادہ تھے لیکن چوائس پر کیسز بنائے گئے۔ نیب پر پولیٹکل انجنیئرنگ کا الزام عائد کیا گیا اور پاکستان کی اعلی ترین عدالت نے بھی خواجہ سعد رفیق کیس میں اس بات کو نوٹ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بار بار کہا جا رہا تھا کہ ہم نے اپنے مقدمے معاف کروا لیے۔ قوانین میں تکنیکی خلل کی وجہ سے وہ مقدمے رک گئے تھے۔ ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے اس وجہ سے بریت نہیں ہو گی بلکہ فورم تبدیل ہو گا۔ ایسے مقدمات کی تعداد دو سو کچھ زیادہ تھی۔ ایسے کیسز کو متعلقہ اداروں اور عدالتوں میں ٹرانسفر کرنے کے لیے یہ ترمیم کی گئی ہیں۔‘

وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ ’نیب کی دفعہ چار اور پانچ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جن کے مطابق زیر التوا انکوائریز میں چیئرمین نیب کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اس انکوائری کو کلوز کر سکتا ہے یا اسے تفتیش میں تبدیل کر کے ٹرائل کے لیے بھیج سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’ایسی انکوائریز جو پچاس کروڑ روپے سے کم مالیت کی الزامات کی ہیں یا عوامی عہدے کے غلط استعمال سے متعلق ہیں اور اب یہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں تو چئیرمین نیب ان کو متعلقہ تفتیشی اداروں کو بھیج سکتے ہیں۔  نیب افسران کو دفعہ چار کی تشریح میں مسئلہ درپیش تھا۔‘

وزیر قانون نے کہا کہ ’چیئرمین نیب کے حوالے سے صرف ایک ترمیم ہوئی ہے، چیئرمین نیب کو کیس کو بند یا اسے آگے بڑھانے کا اختیار ہے۔ اگر کسی نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی اور اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو اسے عبرت کا نشان بننا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح چیئرمین کو اختیار دیا گیا کہ وہ کیس کو خود کلوز نہیں کریں بلکہ وہ عدالت میں معاملہ بھیجیں گے کہ اس کیس کو کلوز کرنا ہے، اگر احستاب عدالت مطمئن ہو گی تو ہی وہ کیس کلوز ہو گا۔ ورنہ متعلقہ محکمے یا ادارے کو تفتیش کرنے کے لیے بھیجا جائے گا جن میں  ایف آئی اے ہو سکتی ہے، صوبائی اینٹی کرپشن یا کسٹم انٹیلی جنس، اس کے علاوہ بھی تفتیشی ادارے ہو سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’یہ وہ ترامیم ہیں جو عمران خان کی حکومت میں تین آرڈیننسز کے تحت متعارف کروائی تھیں۔ کیونکہ کہا گیا کہ سول بیورو کریسی کام نہیں کر رہی۔ کاروباری طبقے نے کہا کہ نیب ہمیں کاروبار نہیں کرنے دے رہا۔‘

اس موقعے پر ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان نیب ترامیم کا مقصد ادارے کو بہتر بنانا تھا اور اس حوالے سے ہم نے جو فیصلہ کیا تھا وہ نیک نیتی پر مبنی تھا۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما نیب ترامیم پر حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کر چکے ہیں کہ ان ترامیم کا مقصد حکمران اتحاد کے خلاف نیب کیسز کو ختم کرنا ہے اور اپنی کرپشن چھپانا ہے۔

دوسری جانب چند روز قبل سابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان ’مداخلت سے تنگ آ کر‘ عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔

تاہم وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے کہا تھا کہ آفتاب سلطان نے ’ذاتی وجوہات‘ کی بنا پر استعفی دیا ہے۔

اپنے الوداعی خطاب میں آفتاب سلطان نے کہا تھا کہ انہوں نے نیب میں مبینہ مداخلت پر استعفی دیا۔ ’نیب ایک اچھا ادارہ ہے، صرف ایک فیصد لوگ غلط کام کر رہے ہیں، نیب افسران ان ایک فیصد لوگوں کی بات نہ مانیں۔‘

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے ساتھ نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی سے متعلق مشاورت کے بعد مذکورہ عہدے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کے نام کی منظوری دی جس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ کو بطور چیئرمین نیب تعینات کر دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست