راشد خان میں ایسی کیا خوبی جو دوسروں میں نہیں؟

جب افغان کرکٹر راشد خان نے اپنا کیریئر شروع کیا تھا تو متعدد کوچز نے ان کی سپیڈ کم کروانے کی کوشش کی لیکن ان کے کپتان اصغر افغان نے کوچز کو ایسی کوشش نہ کرنے کا کہا۔

راشد خان افغانستان کی کرکٹ کے پہلے حقیقی سپر سٹار کہلاتے ہیں (افغانستان کرکٹ بورڈ ٹوئٹر اکاؤنٹ)

مجھے یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جب لیگ سپنر عبدالقادر کو 1983 کے عالمی کپ کے لیے کپتان عمران خان کے اصرار پر پاکستانی کرکٹ ٹیم میں شامل کیا گیا تھا تو یہ اعتراض سامنے آیا تھا کہ لیگ سپنر کا ون ڈے کرکٹ میں کیا کام؟

یہ محض عیاشی اور مہنگا سودا ہے لیکن عمران خان کی سوچ یکسر مختلف تھی۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لیگ سپنر رنز دینے کے باوجود وکٹیں حاصل کرلیتا ہے اور وہ ٹیسٹ کرکٹ کے ساتھ ساتھ ون ڈے کرکٹ میں بھی مؤثر ہتھیار ثابت ہو گا۔

عبدالقادر نے 1983 کے عالمی کپ میں نہ صرف اپنا انتخاب درست ثابت کیا بلکہ وہ چار سال بعد ہونے والے 1987 کے عالمی کپ میں بھی کامیاب رہے۔

ان کی کامیابیوں نے دوسری ٹیموں کی بھی آنکھیں کھول دیں اور انہیں احساس ہوا کہ لیگ سپن محدود اوورز کی کرکٹ میں بھی مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔

لیگ سپن بولنگ جسے ون ڈے کرکٹ میں مہنگا سودا سمجھا جاتا تھا، کامیابیوں کی ایک بڑی وجہ بن گئی۔

آج کا دور ماضی سے اس لیے کچھ مختلف ہے کہ اب کرکٹ، ون ڈے فارمیٹ سے مزید مختصر ہوکر ٹی ٹوئنٹی اور ٹی ٹین میں داخل چکی ہے۔

اگر ہم اپنے اردگرد جائزہ لیں تو چاہے وہ انٹرنیشنل ہو یا فرنچائز کرکٹ، ہر ٹیم لیگ سپن بولنگ کے ذریعے حریف بیٹنگ کو قابو کرنے میں مصروف نظر آتی ہے۔

اگر سری لنکا کے پاس ونندو ہسارنگا ہے تو نیوزی لینڈ کی ٹیم اِش سوڈھی کے ذریعے وکٹیں لے رہی ہے۔

آسٹریلیا کے پاس ایڈم زیمپا کی شکل میں میچ ونر ہے۔ انڈیا یوزویندرا چاہل کے ذریعے کامیابیاں سمیٹ رہا ہے تو انگلینڈ عادل رشید کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

 افغانستان کی ٹیم اس معاملے میں سب سے زیادہ خوش قسمت تصور کی جاتی ہے، جس کے پاس فتح گر راشد خان موجود ہے جسے حریف بیٹسمینوں کو اپنے اشارے پر نچانے کا فن خوب آتا ہے۔

راشد خان افغانستان کی کرکٹ کے پہلے حقیقی سپر سٹار ہیں۔

 راشد خان میں ایسی کیا خاص بات جو دوسروں میں نہیں؟

پاکستان کے خلاف افغانستان کی پہلی تاریخی جیت کے فوراً بعد میں نے یہ سوال افغانستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹیو شفیق ستانکزئی سے کیا تو انہوں نے بتایا کہ سب سے بڑی خوبی جو راشد کو دوسروں سے منفرد بناتی ہے وہ ان کا اپنے کھیل اور ذمہ داری کے معاملے میں بہت زیادہ مخلص اور سنجیدہ ہونا ہے۔

شفیق ستانکزئی کا کہنا ہے کہ راشد خان اپنی فٹنس اور مہارت کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے، جس کی جھلک اس کی ٹریننگ میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔

شفیق ستانکزئی سے جب میں نے راشد خان کی بولنگ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ راشد خان دوسرے بولرز سے اس لیے مختلف ہیں کہ ان کی گیندوں میں دوسرے لیگ سپنرز سے زیادہ سپیڈ اور ایکیوریسی ہے۔

انہیں پچ کو دیکھ کر اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ پچ کیسا برتاؤ کرے گی اور وہ پھر اسی کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ درحقیقت ان کی کامیابیوں میں ان کی سپیڈ کا عمل دخل بہت نمایاں ہے۔

شفیق ستانکزئی نے مجھے ایک واقعہ بتایا کہ جب راشد خان نے اپنا کیریئر شروع کیا تھا تو متعدد کوچز نے ان کی سپیڈ کم کروانے کی کوشش کی  لیکن ان کے کپتان اصغر افغان نے ان کوچز کو کہہ دیا تھا کہ وہ راشد خان کی سپیڈ کو کم کرنے کی کوشش نہ کریں۔

ہنس ُمکھ اور منکسرالمزاج شخص

میں نے پاکستان اور افغانستان  کے متعدد بین الاقوامی میچز کور کیے ہیں۔

ان میچوں میں فضا اتنی ہی گرم ہوتی ہے جتنی انڈیا پاکستان میچوں میں، بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ۔

اس کی وجہ سیدھی سادی ہے اور وہ ہے دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی تعلقات جس کا اثر کرکٹ میچوں میں بھی نظر آیا ہے اور ان میچوں کے بعد کھلاڑیوں سے کہیں زیادہ جارحانہ اور جوشیلا رویہ تماشائیوں میں دکھائی دیا ہے۔

جیسا کہ ہیڈنگلے اور شارجہ میں جہاں تماشائیوں نے بہت زیادہ ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی تھی۔

تاہم جب سے افغان کرکٹرز پاکستان آکر پاکستان سپر لیگ کھیل رہے ہیں، انہوں نے یہاں اپنے مداح بنالیے ہیں خاص کر راشد خان پاکستان سپر لیگ کے غیرملکی کرکٹرز میں سب سے زیادہ  مقبول کھلاڑی کا روپ دھارچکے ہیں۔ ان کی فین فالوونگ بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔

فیلڈ میں وہ یقیناً ایک حقیقی پروفیشنل کرکٹر کے طور پر نظرآتے ہیں جس کے پاس بلے بازوں کے لیے کوئی معافی نہیں ہے لیکن اس وقت بھی ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی ہے اور وہ اپنے کھیل سے صحیح معنوں میں انجوائے کررہے ہوتے ہیں۔

جب وہ پریس کانفرنس میں آتے ہیں یا میڈیا کو انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں تو ایک ہنس مکھ اور منکسرالمزاج شخص کے طور پر سب کے دل موہ لیتے ہیں۔ لاہور قلندرز کے لیے وہ ایک فیملی ممبر بن چکے ہیں۔

کمپیوٹر سائنس اور خوبصورت ہینڈ رائٹنگ

راشد خان کے لیے پاکستان کبھی اجنبی جگہ نہیں رہی ہے۔ جب افغانستان کے خراب حالات کی وجہ سے انہیں اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان آنے پر مجبور ہونا پڑا تھا توانہوں نے پشاور میں چند سال گزارے تھے جہاں وہ کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ مشہور اسلامیہ کالج  کے ذہین طالب علموں میں شمار ہونے لگے تھے۔

میں نے اس سلسلے میں اسلامیہ کالج پشاور کے ڈائریکٹر سپورٹس علی ہوتی سے بات کی، جنہوں نے راشد خان کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔

علی ہوتی بتاتے ہیں: ’راشد خان اس زمانے میں راشد ارمان ہوا کرتے تھے۔ وہ کمپیوٹر سائنس کے ایک ذہین طالب علم کے طور پر کالج میں مشہور تھے۔ مجھے ان کی مثبت سوچ ہمیشہ اچھی لگتی تھی۔ میں راشد کی خوبصورت ہینڈ رائٹنگ کو نہیں بھولا ہوں۔‘

راشد خان کے کالج ٹیم کے کپتان سجاد ہاشمی کہتے ہیں: ’راشد خان کم گو تھے لیکن کبھی شکایت نہ کرنے والے۔ وہ وقت ضائع کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کا ٹیلنٹ چُھپا ہوا تھا، شاید وہ اپنے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مجھے آؤٹ کردو تو میچ کھلا دوں گا‘

پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر انضمام الحق چند ماہ کے لیے افغانستان کے ہیڈ کوچ رہے تھے۔ ان کے پاس بھی راشد خان کے بارے میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔

راشد خان زمبابوے میں انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز کرچکے تھے جو کوئی بہت اچھا نہیں تھا لیکن سلیکٹرز نے انہیں شارجہ کے ٹورنامنٹ سے ڈراپ کردیا۔ جب انضمام الحق نے کھلاڑیوں کی فہرست میں ان کا نام نہ دیکھا تو انہوں نے سلیکٹرز سے صرف ایک بات کہی تھی کہ سلیکشن کے بارے میں باقی باتیں بعد میں ہوں گی پہلے وہ راشد خان کو ٹیم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

انضمام الحق اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی بتاتے ہیں کہ ’میں نے  زمبابوے کے دورے میں راشد خان کو نیٹ میں بولنگ کے لیے کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ مجھے نیٹ میں آؤٹ کردیں تو میں انہیں اگلا ون ڈے  کھلا دوں گا۔ اگرچہ راشد مجھے آؤٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے لیکن میں ان کا رسپانس دیکھنا چاہتا تھا۔ اس وقت راشد کی عمر صرف 17 سال تھی اور انہوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ ٹھیک ہے آئیں نیٹ میں۔‘

اپنے ملک میں کھیلنے کا خواب

افغانستان کے دیگر تمام کرکٹرز کی طرح راشد خان بھی اپنے دل میں یہ کسک محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ابھی تک اپنے ہی ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا ہے کیونکہ جب آپ اپنے ملک میں کھیلتے ہیں تو وہاں کے اپنے لوگ آپ کو بہت زیادہ سپورٹ کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو انہوں نے ابھی تک نہیں دیکھی ہے۔

اپنے ملک میں کھیلنے کا ان کا خواب ہے جس کے حقیقت ہونے کا انتظار ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر