شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس: پاکستان کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم میں شرکت بے حد اہم موڑ ہے، جسے پاکستان اپنے حق میں استعمال کر سکتا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نو جنوری 2023 کو جنیوا میں ایک اجلاس کے دوراندیکھے جاسکتے ہیں (اے ایف پی)

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں شرکت کے لیے پاکستانی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے انڈیا جانے کے فیصلے پر تنقید بھی ہو رہی ہے اور کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ موجود حالات میں انہیں اس دورے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔

لیکن اگر ایس سی او کے چارٹر کی روح کو صحیح طریقے سے سمجھا جائے تو شاید جواب کچھ اور ہو۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں رکھی گئی تھی اور آج اس کے آٹھ ممالک رکن ہیں، جب کہ چھ ڈائیلاگ پارٹنر ہیں اور سعودی عرب، ایران اور قطر بھی ڈائیلاگ پارٹنر بننے کے قریب ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی یہ تنظیم دنیا کی سلامتی، امن اور ترقی پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کرے گی۔

ایس سی او چارٹر کے آرٹیکل ایک کے مطابق اس تنظیم کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان مضبوط رشتے قائم کرنا ہے، جس میں باہمی اعتماد، دوستی اور اچھے تعلقات کو مضبوط کرنا شامل ہیں۔

چارٹر کے مطابق اچھے تعلقات ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے پر مبنی ہیں تو دوسری طرف اس کا ایک مقصد تجارت اور معیشت کے ذریعے موثر علاقائی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری لائے بغیر تجارت اور معیشت جیسے اہم معاملات میں علاقائی پیش رفت مشکل دکھائی دیتی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں کچھ بہتری لانے کی امید رکھنا شاید غلط نہ ہو، لیکن اس حوالے سے کچھ پیش رفت ہونا شاید فوری طور پر ممکن نہیں ہے۔

اس وقت تو پاکستان اور انڈیا میں تلخی اس انتہا کی ہے کہ 28 اپریل کو جب ایس سی او کے وزرائے دفاع دہلی میں ملے تو دہشت گردی کے حوالے سے انڈین وزیر دفاع کا اجلاس میں یہ کہنا تھا کہ ’اگر کوئی قوم دہشت گردوں کو پناہ دیتی ہے تواس کی نشاندہی کرنا لازمی ہے۔‘

دوسرے ہی روز انڈیا کے اخبارات مثلاً انڈین ایکسپریس نے یہ سرخی جمائی کہ ’پاکستان، کیا تم سن رہے ہو؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح سے جب انڈین وزیر اپنے چینی ہم منصب سے ملے تو اسی اخبار نے یہ لکھا کہ وزیر راج ناتھ سنگھ نے چینی وزیر سے شکایت کی ہے کہ بیجنگ کی جانب سے موجودہ معاہدوں کی خلاف ورزی نے دو طرفہ تعلقات کی بنیاد کو ختم کر دیا ہے۔

ان اخباری رپورٹوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں دو رکن ممالک اپنے باہمی تعلقات پر یقیناً خود بھی بات کرتے ہیں اور اجتماعی طور پر اس کو ایس سی او کے پلیٹ فارم سے بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔

اس ماہ کی چار تاریخ کو جب بلاول بھٹو ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کریں گے تو انہیں انڈیا کی جانب سے بالواسطہ تنقید کا ضرور سامنا ہو گا۔

لیکن دوسری طرف بلاول بھٹو کو پاکستان کا موقف بیان کرنے کا بھی موقع ملے گا۔ وہ اس موقعے کو استعمال کر کے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان علاقائی تعاون پر پورا یقین رکھتا ہے۔ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنے ملک کا موقف بھی موثر طریقے سے پیش کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ خطے میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک علاقائی تعاون نہ ہو اور بین الاقوامی قوانین کی خطرناک خلاف ورزیاں جاری رہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران اور انڈین اور بین الاقوامی میڈیا سے بات کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ کے پاس پاکستان کا موقف اور کشمیری کیس پیش کرنے کے سنہری مواقع ہوں گے۔

ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ بلاول بھٹو گوا میں بھی ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر