نگران حکومت کی آئینی مدت پر ماہرین آئین و قانون کی منقسم رائے

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’آئین میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے تین ماہ بعد الیکشن کرانا ضروری ہیں اور انتخابات کی نگرانی کے لیے عبوری حکومت بنائی جاتی ہے لیکن آئین میں نگران حکومت کی مدت واضع نہیں۔‘

صوبہ خیبر پختونخوا وزیر اعلی اعظم خان اور پنجاب کے وزیر اعلی محسن نقوی (پنجاب اور کے پی ایوان وزرا اعلی)

پاکستان میں آئینی اور قانونی ماہرین صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگراں حکومتوں کی موجودہ آئینی حیثیت اور ان کی مدت پر منقسم رائے رکھتے ہیں اور اس معاملے کے آئینی حل کے لیے اعلی عدلیہ کی تشریح تجویز کر رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اسمبلیوں کی تحلیل کے باوجود 90 دن کی مقررہ آئینی مدت میں انتخابات نہ ہوسکے۔

لیکن اب تحریک انصاف کی جانب سے نگران حکومتوں کی مدت تین ماہ بعد ختم ہونے سے متعلق سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

پنجاب اسمبلی رواں برس 14 جنوری کو تحلیل ہوگئی تھی جب کہ اسی ماہ 22 تاریخ کو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

تحریک انصاف کی قیادت اپنے بیانات میں نگران حکومت کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل اظہر صدیق نے شیخ رشید کی جانب سے اس بارے میں الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھا ہے۔

اس معاملے پر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’آئین میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے تین ماہ بعد الیکشن کروانا ضروری ہیں اور انتخابات کی نگرانی کے لیے عبوری حکومت بنائی جاتی ہے لیکن آئین میں نگران حکومت کی مدت واضح نہیں۔‘

پی ٹی آئی کی جانب سے شدید ردعمل اور عدالتی احکامات کے باوجود پنجاب میں انتخابات نہ ہونے کے تین ماہ ختم ہوجانے کے بعد بھی نگران حکومت کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

تحریک انصاف کے صدر پرویز الہٰی اور محمود خان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگراں حکومتوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست 19 اپریل کو دائر کر دی تھی۔

درخواست میں آئینی مدت کی تکمیل کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا کے نگران وزرائے اعلیٰ کو فوری طور پر ہٹانے کی استدعا کی گئی تھی۔

درخواست گزاروں نے دونوں نگران وزرائے اعلیٰ کو اختیارات کے استعمال سے فوری طور پر روکنے کے علاوہ عدالت عظمیٰ سے اپنی نگرانی میں پنجاب و خیبر پختونخوا میں روز مرہ کے امور چلانے کا طریقہ کار وضع کرنے کی بھی استدعا کی گئی تھی۔

ملک میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کے تاہم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی ریمارکس میں کہا تھا کہ نگران حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر آئینی سوال اٹھتا ہے۔

آئینی ماہرین کے بقول ’گذشتہ ایک سال سے ایسے آئینی مسائل اور پیچیدگیاں سامنے آرہی ہیں جو پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مقررہ مدت میں انتخابات نہ ہونے پر عبوری حکومت کی مدت بارے بھی پہلے ایسا مسئلہ کبھی پیش آتے نہیں دیکھا۔

’انتخابات میں تاخیر کی مثالیں موجود ہیں لیکن ان دنوں نگران حکومتیں قائم نہیں رہیں۔‘

نگران حکومتوں کی آئینی مدت

سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ کے مطابق: ’آئین میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد تین ماہ میں انتخابات لازمی ہیں۔ اس لحاظ سے قائم کی گئی نگران حکومت بھی تین ماہ کے لیے تصور ہوتی ہیں کیوں کہ آئین میں نگران حکومت کی مدت کا براہ راست تذکرہ موجود نہیں ہے۔

’اگر انتخابات ہوجاتے تو عبوری حکومت بھی ختم ہوجاتی لیکن اب جب تک انتخابات نہیں ہوں گے نگران حکومت بھی یہیں رہے گی۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’بے شک آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے کے تین ماہ بعد انتخابات لازمی ہیں مگر آرٹیکل 254 اس معاملہ پر تحفظ دیتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی وجہ سے انتخابات مقررہ مدت میں نہیں ہوتے اور اس کے بعد جب بھی ہوتے ہیں وہ آئینی تسلیم ہوں گے۔

’اس لحاظ سے الیکشن تک نگران حکومت بھی آئینی ہی تسلیم کی جائے گی۔‘

صدر لاہور ہائی کورٹ بار مقصود بٹر کہتے ہیں کہ ’جس طرح اسمبلی توڑنے کے تین ماہ کی مدت میں انتخابات لازمی ہیں نگران حکومت بھی اسی دورانیہ تک قائم رہتی ہے۔ آئین انتخابات بغیر کسی بہت بڑی وجہ کے جیسے جنگ یا کوئی آفت ہو الیکشن میں تاخیر کی اجازت دیتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ہاں ایسے حالات نہیں کہ مقررہ مدت میں انتخاب نہ کرانے کی آپشن پر پورا اترتے ہوں۔ عدالتی احکامات کے باوجود حکومت یا الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخاب نہیں کرایا اور اسی کو بنیاد بنا کر نگران حکومت کو کام جاری رکھنے کا موقع دیا جارہا ہے۔‘

پرویز الہی حکومت بحال کرنے کا مطالبہ

تحریک انصاف کے وکیل اظہر صدیق نے الیکشن کمیشن کو سابق وفاقی وزیر شیخ رشید کی جانب سے دوسرا خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’نگران حکومت کو کام  سے فوری روکا جائے۔ کیوں کہ پنجاب میں ابھی تک الیکشن نہیں کرائے گئے۔ ابھی حتمی طور پر معلوم نہیں کہ کب الیکشن کرائے جاٸیں جبکہ 90 روز کے بعد نگران حکومت غیر آٸینی ہو چکی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خط میں کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن عبوری حکومت ختم کر کے پنجاب میں چوہدری پرویز الہی کی حکومت بحال کرے اگر نگران حکومت کو ختم نہ کیا گیا تو اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا جاٸے گا۔‘

اظہر صدیق کے مطابق اس سے قبل نگران حکومت کی مدت 90 دن پورے ہونے پر بھی الیکشن کمیشن کو خط بھجوایا تھا لیکن اس کا جواب نہیں آیا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی گذشتہ دنوں کہہ چکے ہیں کہ ’نگران حکومتوں کی مدت میں توسیع کا انحصار حالات پر ہے اور آئین میں نگران حکومتوں کی مدت میں توسیع کی گنجائش موجود ہے۔‘

اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ’آئین میں ایسی شقیں موجود ہیں کہ آئین میں رہتے ہوئے نگران حکومتوں کے وقت کی کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ ‎ 1988میں سیلاب کے باعث انتخابات ملتوی کردیئے گئے تھے، ‎بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی الیکشن کمیشن نے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے انتخابات کی تاریخ تبدیل کی تھی۔‘

آئینی طور پر نگران حکومت کو ہٹانے کا کیا طریقہ ہے؟

قانون دان امجد شاہ کے بقول ’نگران حکومت کو ہٹانے کا کوئی آئینی طریقہ کار واضح نہیں اس کا اختیار نہ وفاقی حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن ایسا کرسکتا ہے۔

’البتہ آئینی عدالتیں جیسے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اگر معاملہ پیش ہوتا ہے تو پھر سپریم کورٹ اس بارے فیصلہ کر سکتی ہے۔ کیوں کہ جہاں آئین واضح نہ ہو وہاں اعلی عدالتیں تشریح کا اختیار رکھتی ہیں۔ جس طرح  ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ اور 63A  سے متعلق کیس کا فیصلہ جیسی مثالیں ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آئین کے لحاظ سے تو ابھی تک یہی طریقہ ہے کہ جب الیکشن ہوں تو نگران حکومت نئی حکومت کو اقتدار سونپ کر فارغ ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ نگران حکومت ہٹا کر نئی تشکیل دینے کی نہ کوئی روایت موجود ہے اور نہ ہی کبھی ایسا معاملہ عدالتوں کے سامنے آیا۔

’اس بارے میں اگر عدالتوں سے رجوع کیا بھی گیا تو عدالتوں کو پھر سے خود تشریح کرنا پڑے گی۔‘

مقصود بٹر کے بقول ’آئینی مدت ختم ہوجانے کے بعد عدالتیں نگران حکومت سے متعلق یا نئی عبوری حکومت کی تشکیل بارے کوئی بھی فیصلہ دینے کا اختیار رکھتی ہیں۔

’عدالتوں کو اسمبلی تحلیل ہونے کی مدت ختم ہونے کے باوجود الیکشن نہ کرانے پر سخت کارروائی کا حکم دینا چاہیے تھا معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے دوسرا یہ کہ نگران حکومت سے متعلق بھی فیصلہ دینا چاہیے کہ ان کی مدت ختم ہوچکی ہے پھر چاہے ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنا ہو یا نگران کابینہ کر دینا چاہیے تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست