امریکی وزیر خارجہ سعودی عرب کا دورہ کریں گے: محکمہ خارجہ

اینٹنی بلنکن کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سعودی عرب اور امریکہ، جدہ میں جاری مذاکرات میں سوڈان کے متحارب جرنیلوں کے درمیان پائیدار جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان 14 اکتوبر 2021 کو واشنگٹن ڈی سی میں ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکی محکمہ خارجہ نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ  وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن  اگلے ہفتے سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔

اینٹنی بلنکن کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سعودی عرب اور امریکہ، جدہ میں جاری مذاکرات میں سوڈان کے متحارب جرنیلوں کے درمیان پائیدار جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سوڈان اور یمن کی جنگیں، داعش کا مسلسل خطرہ اور ریاض کے اسرائیل کے ساتھ  تعلقات استوار کرنا بلنکن کے چھ سے آٹھ  جون کے دورے کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

جزیرہ نما عرب کے امور سے متعلق محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر عہدے دار ڈینیل بینائم نے کہا کہ اس دورے کے معاملے میں ’ہم بہت زیادہ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’ہم مثبت ایجنڈے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اور ہمارے ملک مل کر بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں۔‘

داعش کا مقابلہ

بلنکن بدھ کو خلیج تعاون کونسل کے ساتھ وزارتی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ وہ جمعرات کو ریاض میں داعش کے خلاف لڑنے والے 80 ممالک کے اتحاد کے اجلاس میں شامل ہوں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے انسداد دہشت گردی بیورو کے ایئن میک کیری کے مطابق اس اجلاس میں مشرق وسطیٰ سے باہر جہادی انتہا پسندی کے پھیلاؤ پر بات ہو گی۔

میک کیری نے داعش کے لیے ایک اور مخفف استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم خاص طور پر افریقہ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں جہاں پرتشدد گروہوں نے داعش  کے نظریے کو اپنا رکھا ہے اور وہ بے گناہ لوگوں پر حملے کر رہے ہیں، مقامی معیشتوں کو تباہ کر رہے ہیں، سکولوں اور صحت کی دیکھ بھال کے مراکز کو جلا رہے ہیں، برادریوں سے زبردستی کر رہے ہیں، اور ملازمتیں پیدا کرنے سے روک رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ریاض میں ہونے والا اجلاس ’اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی برادری داعش کو کمزورکرنے، اسے توڑنے اور بالآخر تباہ کرنے کے اپنے عزم میں متحد ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اتحاد برادری کی سطح پر استحکام کے منصوبوں کے لیے کروڑوں ڈالر اکٹھے کرے گا۔ ان کا کہنا تھا بلنکن ایک ’اہم ‘ نئے امریکی کردار کا اعلان بھی کریں گے۔

سوڈان۔ یمن مذاکرات

امریکی وزیر خارجہ کے دورے میں سوڈان میں جاری لڑائی پر بھی توجہ دی جائے گی۔

اپریل سے لڑنے والے دو حریف جرنیلوں کے ماتحت فورسز کے درمیان مسلسل جنگ بندی کی کوششیں جدہ میں ہونے والی بات چیت میں اب تک ناکام رہی ہیں۔ سوڈان میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سینکڑوں سفارت کار اور سوڈانی شہری خرطوم چھوڑ چکے ہیں۔

واشنگٹن نے جمعرات کو دونوں جرنیلوں سے وابستہ کمپنیوں پر پابندیاں عائد کیں لیکن اس عمل کا گولہ باری اور بمباری پر کوئی اثر نہیں ہوا جس کی وجہ سے سوڈانی دارالحکومت خرطوم اور دیگر علاقوں میں متعدد افراد کی جان جا چکی ہے۔

امریکہ اور سعودی عرب یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی زیرقیادت اتحاد کی حمایت یافتہ سرکاری افواج کے درمیان طویل تنازع ختم کروانے کی براہ راست کوشش بھی کر رہے ہیں۔

یمن جزیرہ نما عرب کا غریب ترین ملک ہے۔ اپریل 2022 میں اقوام متحدہ کے توسط طے پانے والی جنگ بندی کے بعد سے وہاں امن ہے۔

تعلقات میں بہتری لانا

امریکی وزیر خارجہ کا دورہ امریکہ  کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے سعودی عرب کے حالیہ دورے کے بعد ہونے جا رہا ہے۔

یہ دورہ صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے تقریباً ایک سال بعد ہو گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے میں محض ملی جلی کامیابی ملی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال امریکی صدر جو بائیڈن نے دو طرفہ تعلقات پر نظرثانی کا حکم دیا جس سے ان کی ناراضی کا اشارہ ملتا ہے۔

تاہم امریکی حکام سعودی عرب کے ساتھ بہتر تعلقات کی اپنی امیدوں کو نہیں چھپاتے۔ امریکہ کا ایک مقصد یہ ہے کہ ریاض کو ابراہام معاہدوں کے جزو کے طور پر اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے پر رضامند کیا جائے۔

ابراہام معاہدوں کا آغاز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا جن  کے نتیجے میں متعدد عرب ممالک کے یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر آئے۔

لیکن ریاض اپنے اس مطالبے پر قائم ہے کہ اسرائیل واشنگٹن کی جانب سے سکیورٹی کی ضمانتوں کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے۔

بدھ کو امریکی محکمہ خارجہ کی مشرق وسطیٰ کے لیے اعلیٰ عہدے دار باربرا لیف نے کانگریس کو بتایا کہ لوگوں کو سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان صرف ’ تعلقات کے بتدریج قیام‘ کی توقع رکھنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معمول کے تعلقات کا مقصد حاصل کرنے  سے پہلے بہت سا کام کرنے کی گنجائش دکھائی دے رہی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا