روس کا یوکرین کا حملہ ناکام بنانے، سینکڑوں فوجی مارنے کا دعویٰ

روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ یوکرین نے جنوبی دونیتسک میں چھ مشینی اور دو ٹینک بٹالینز کے ساتھ حملہ کیا، جسے ناکام بنا دیا گیا تاہم کیئف کی جانب سے اس دعوے پر اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

روس نے پیر کو کہا ہے کہ اس کی فوج نے جنوبی یوکرین کے علاقے دونیتسک میں محاذ جنگ کے پانچ مقامات پر یوکرین کے ایک بڑے حملے کو ناکام بنا دیا ہے اور اس کارروائی میں کیئف کے حامی سینکڑوں فوجی مارے گئے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا جس حملے کے بارے میں بتایا گیا ہے وہ یوکرین کی اس جوابی کارروائی کا آغاز تھا، جس کے بارے میں کیئف کئی مہینوں سے اعلان کر رہا ہے کہ وہ فروری 2022 میں کیے گئے حملے کے بعد روسی فوج کے قبضے میں جانے والے علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لے گا۔

روئٹرز فوری طور پر روس کے بیان کی تصدیق نہیں کر سکا جبکہ یوکرین کی وزارت دفاع اور فوج نے بھی تبصرے کی تحریری درخواستوں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

کیئف نے اس ’جوابی حملے‘ کے حوالے سے اتوار کو ’خاموشی ‘ اختیار کیے رکھی، جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا ہے۔

روس کی وزارت دفاع نے کہا کہ یوکرین نے جنوبی دونیتسک میں چھ مشینی اور دو ٹینک بٹالینز کے ساتھ حملہ کیا۔ ماسکو کو طویل عرصے سے شبہ ہے کہ یوکرین روس کے زیر انتظام علاقے میں داخل ہونا چاہتا ہے۔

روسی وزارت دفاع نے مقامی وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’چار جون کی صبح دشمن نے جنوبی دونیتسک کی سمت میں محاذ کے پانچ سیکٹرز میں بڑے پیمانے پر حملہ شروع کیا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’دشمن کا ہدف یہ تھا کہ وہ محاذ کے کمزور ترین سیکٹر سے ہمارے دفاعی نظام کو توڑ کر علاقے میں داخل ہو جائے۔ دشمن اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور اسے کوئی کامیابی نہیں ملی۔‘

روس کی وزارت دفاع نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ حملے کے بعد میدان میں متعدد یوکرینی بکتر بند گاڑیاں تباہی کا شکار ہیں۔

وزارت نے بتایا کہ روسی افواج نے 250 یوکرینی فوجیوں کو مار دیا جبکہ 16 ٹینکوں، انفنٹری گاڑیوں اور 21 بکتر بند جنگی گاڑیوں کو تباہ کر دیا۔

وزارت کا مزید کہنا تھا کہ روسی چیف آف دا جنرل سٹاف ویلری گراسیموف، جو یوکرین میں ماسکو کے فوجی آپریشن کے انچارج ہیں، یوکرین کے حملے کے علاقے میں موجود تھے۔

جوابی کارروائی؟

یوکرین کئی ماہ سے روسی افواج کے خلاف جوابی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے جس کے بارے میں کیئف میں حکام اور امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے کہا ہے کہ یہ روسی صدر ولادی میر پوتن کا غرور توڑ دے گا۔

یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی نے ہفتے کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ وہ جوابی کارروائی شروع کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن انہوں نے کامیابی کے حوالے سے متوازن پیشگوئی کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔

انہوں نے انٹرویو میں کہا: ’مجھے نہیں معلوم کہ اس میں کتنا وقت لگے گا؟ سچ پوچھیں تو یہ مختلف طریقوں سے ہوسکتا ہے، بالکل مختلف انداز میں۔ لیکن ہم یہ کرنے جا رہے ہیں اور ہم تیار ہیں۔ ‘

روسی افواج سے لڑنے کے لیے اربوں ڈالر کے مغربی ہتھیاروں کے حصول کے بعد جوابی کارروائی کی کامیابی یا ناکامی کے، یوکرین کے لیے مستقبل میں مغربی سفارتی اور فوجی حمایت پر اثر انداز ہونے کا امکان ہے۔

یوکرین نے حالیہ ہفتوں میں روسی ٹھکانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی لیکن اپنے مخصوص منصوبوں کو خفیہ رکھا کیوں کہ وہ روس کی کہیں بڑی فوج کو ایک اور دھچکا لگانا چاہتا ہے۔

روسی دارالحکومت ماسکو کو گذشتہ ماہ ایک ڈرون سے نشانہ بنایا گیا۔ روس نے کہا تھا کہ یہ یوکرین کا دہشت گردانہ حملہ تھا۔ حالیہ دنوں میں بیلگوروڈ کے علاقے میں یوکرین کی حامی افواج کئی بار روس میں داخل ہو چکی ہیں۔

یوکرین میں جنگ

پوتن نے گذشتہ سال 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ کریملن کو تیزی سے آپریشن کی توقع تھی لیکن اس کی افواج کو مسلسل شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں مشرقی یوکرین کے بڑے حصے میں واپس جانا اور دوبارہ منظم ہونا پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب روس کو کم از کم 18 فیصد ایسے علاقے پر کنٹرول حاصل ہے جسے بین الاقوامی سطح پر یوکرین کا علاقہ تسلیم کیا جاتا ہے اور اس نے یوکرین کے چار علاقوں پر روس کا علاقہ ہونے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔

مہینوں سے ہزاروں روسی فوجی ایک محاذ پر موجود ہیں جو تقریباً 600 میل (1000 کلومیٹر) طویل ہے۔ روسی فوج یوکرین کے حملے کے خلاف تیاری کر رہی ہے جس کے حوالے سے توقع ہے کہ اس میں روس کے نام نہاد زمینی پل کو جزیرہ نما کرائمیا تک توڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ روس نے کرائمیا کا 2014 میں اپنے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک کہ وہ آخری روسی فوجی کو اپنی سرزمین سے نکال نہیں دیتا۔

روس کا کہنا ہے کہ جنگ بڑھتی جا رہی ہے اور مغربی ممالک روس کے خلاف ہائبرڈ جنگ لڑ رہے ہیں جس کا مقصد اختلاف کا بیج بونا اور بالآخر ماسکو کے وسیع قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔

مغرب کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ یوکرین روس کو شکست دے لیکن اس الزام سے انکاری ہے کہ وہ روس کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ سال کہا تھا کہ نیٹو اور روس کے درمیان براہ راست تصادم کا مطلب تیسری عالمی جنگ ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا