ہم تحریک خلافت کے بارے میں جانتے ہیں کیونکہ یہ تاریخ پاکستان کا حصہ ہے۔ ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ پہلی عالمی جنگ میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا تھا، جس پر مسلمانوں نے انگریز حکومت سے وعدہ لیا کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی۔
تاہم انگریزوں نے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل کر دیں، جس پر ہندوستان کے مسلمانوں نے 1919 میں ایک تحریک شروع کی جسے ’تحریک ِ خلافت‘ کا نام دیا گیا۔
جب ترکی کے حصے بخرے کیے گئے تو پھر 1920 میں تحریک ترک موالات شروع کی گئی، جس کے سربراہ گاندھی تھے۔
تحریک خلافت کے دوران مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابو الکلام آزاد اور عطا اللہ شاہ بخاری جیسے علما نے ہندوستان کو ’دارالحرب‘ قرار دے کر ہجرت کا فتویٰ دے دیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ملک افغانستان چلے گئے اور لٹے پٹے واپس آئے۔
مگر اس تحریک کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں جو عزت خلیفہ کے دل میں پیدا ہوئی، وہ آگے چل کر رشتہ داری میں بدل گئی۔
نظام آف حیدرآباد کا خاندان ہی کیوں؟
بیسویں صدی کا آغاز یورپ میں افراتفری اور سیاسی بے چینی لایا۔ روسی انقلاب، پہلی عالمی جنگ، ہسپانوی فلو، ترکی میں خلافت کا خاتمہ جس سے عثمانی خلافت کا چار سو سالہ دور ختم ہو گیا اور پورے شاہی خاندان کو ایک دن کے نوٹس پر ترکی چھوڑنا پڑا۔
آخری خلیفہ عبدالماجد دوم اپنے 150 کے قریب شاہی اہل و عیال کے ہمراہ فرانس کے شہر نیس جا کر مقیم ہوئے۔ خلافت چھن چکی تھی مگر اس کے باوجود شاہی خاندان کے رتبے میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ خلیفہ کو اب بھی عالم اسلام میں وہی حیثیت دی جاتی تھی جو آج پوپ کو حاصل ہے۔
خلیفہ نے چار شادیاں کیں مگر اولاد صرف آخری بیوی سے ہوئی جو شہزادی درِشہوار کہلائی۔ جب بیٹی جوان ہوئی تو خلیفہ غریب الوطن تھے، وہ اپنی بیٹی درشہوار اور بھانجی سلطانہ نیلوفر کے لیے مناسب رشتے تلاش کر رہے تھے۔ ایران اور مصر کے شاہی خاندان سے بھی دونوں کے رشتے مانگے گئے، مگر خلیفہ کی نظریں نظام آف حیدرآباد پر ٹھہر گئیں۔
اس کی ایک وجہ تو خلیفہ کے دل میں ہندوستانی مسلمانوں کی قدر و منزلت تھی اور دوسری وجہ وہ نظام کو اپنے ہم پلہ بھی سمجھتے تھے، کیونکہ نظام کی دولت کے چرچے پوری دنیا میں تھے۔ نظام کی سلطنت میں گولکنڈہ کی کانیں ہیروں اور جواہرات کے لیے مشہور تھیں۔ کوہ نور بھی انہی کانوں سے نکلا تھا۔
’ٹائم میگزین‘ نے اپنے 22 فروری 1937 کے شمارے میں نظام آف حیدر آباد میر عثمان علی کو صف اوّل پر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ وہ دنیا کے امیر ترین فرد ہیں، جنہوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران تاج برطانیہ کو10 کروڑ پاؤنڈ نقد اور ہزاروں فوجی دیے۔
یہ رقم آج کے تقریباً تین ارب ڈالر کے برابر ہے۔ آج کی دنیا ایلون مسک، جیف بیزوس، بل گیٹس، وارن بفٹ، مارک زکر برگ کو جانتی ہے کہ وہ دنیا کے امیر ترین افراد ہیں۔
لیکن 1937 میں دنیا کے امیر ترین آدمی نظام حیدر آباد میر عثمان علی تھے، جن کی ریاست ہندوستان کی تقریباً 562 ریاستوں پر مشتمل تھی اور راجواڑوں میں وہ واحد ریاست تھی جو سب سے بڑی تھی، جس کا رقبہ برطانیہ کے برابر تھا اور جسے 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔
میر عثمان علی کے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا اعظم جاہ اور چھوٹا معظم جاہ۔ تحریک ہجرت کے رہنما مولانا شوکت علی کی چونکہ خلیفہ عبدالماجد دوم سے راہ و رسم تھی اور انہیں معلوم تھا کہ خلیفہ اپنی بیٹی در شہوار اور بھانجی سلطانہ نیلوفر کے لیے ہم پلہ رشتوں کی جستجو میں ہیں۔
شوکت علی نے نظام کو کہا کیوں نہ ہم شہزادوں کی شادی خلیفہ کے گھر کر دیں؟ نظام کو یہ تجویز اس لیے بھی معقول لگی کہ جو رتبہ خلیفہ کو حاصل تھا وہ عالم اسلام میں اور کسی کو حاصل نہیں تھا اور دوسرا یہ امکان بھی تھا کہ اگر کبھی خلافت بحال ہو گئی تو یہ ان کے خاندان میں آ جائے گی کیونکہ خلیفہ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں اور درشہوار ہی ان کی اکلوتی لڑکی تھیں۔
نظام کی جانب سے جب شوکت علی خلیفہ کے پاس رشتہ مانگنے گئے تو خلیفہ نے ہاں کر دی۔ درشہوار کی شادی اعظم جاہ اور سلطانہ نیلوفر کی شادی معظم جاہ سے طے ہو گئی۔ شادی سے پہلے خلیفہ کو نظام کی جانب سے 300 پاؤنڈ ماہانہ وظیفہ ملتا تھا۔ باقی شاہی خاندان کے لیے بھی وظائف مقرر تھے۔
شادیوں کی تقریبات دو ممالک میں
خلیفہ کی اکلوتی بیٹی درشہوار اور ان کی بھانجی سلطانہ نیلوفر کی شادیاں فرانس کے شہر نیس میں 1931 میں ہوئیں۔
ایک کہانی یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ پہلے شادی صرف درشہوار اور اعظم جاہ کی طے ہوئی تھی لیکن جب نکاح کے وقت خلیفہ کے خاندان نے 10 لاکھ مہر طلب کیا تو نظام نے کہا کہ یہ تو بہت زیادہ ہے اتنے میں تو دو دلہنیں آ جاتی ہیں، باتوں باتوں میں نظام نے معظم جاہ کے لیے سلطانہ نیلوفر کو بھی مانگ لیا۔
اس طرح دوسری شادی حادثے کے طور پر ہو گئی۔ دونوں نکاح مولانا شوکت علی نے پڑھائے جبکہ شادی کی تقریبات انڈیا میں ہوئیں۔ جس جہاز پر شہزادیاں اور شہزادے انڈیا پہنچے، اسی میں گاندھی بھی سفر کر رہے تھے۔ گاندھی اور شہزادیوں کی دوستی یہیں پر ہو گئی۔ انڈین نیشنل کانگریس پہلے ہی تحریک خلافت کی حمایت کر چکی تھی۔
حیدرآباد جیسے قدامت پسند شہر میں دو جدت پسند شہزادیوں کی آمد کسی دھماکے سے کم نہ تھی، جہاں خواتین چار دیواری کے اندر تھیں اور سخت پردے کا رواج تھا۔ شہزادیاں تعلیم یافتہ تھیں، عوامی مسائل میں دلچسپی رکھتی تھیں اور لڑکیوں کی تعلیم چاہتی تھیں۔ در شہوار کو فرانسیسی، انگریزی، ترکی زبانوں پرعبور تھا اور جلد ہی وہ اردو میں بھی ماہر ہوگئیں۔
ان کا قد بھی اعظم جاہ سے لمبا تھا، دونوں میاں بیوی ایک ساتھ کھڑے ہوتے تو اعظم جاہ بیوی کے کندھوں تک ہی پہنچ پاتے۔ نظام نے اپنی دونوں بہوؤں کو پردے کی شرط سے استثنیٰ دے دیا تھا اور انہیں اپنے محل کا نگینہ قرار دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں شہزادیوں کو ٹینس کھیلنے اور گھڑ سواری کی بھی اجازت تھی۔
شہزادیوں کو وقتاً فوقتاً یورپ جانے کی بھی اجازت تھی، جہاں وہ نظام کے عجائب گھر کے لیے نوادرات بھی خرید کر لاتی تھیں۔
سلطانہ نیلوفر نے بنارسی ساڑھیوں کے ہندوستانی ڈیزائن میں جدت پیدا کی، جو جلد ہی پورے ہندوستان میں مقبول ہو گئی۔
نیلوفر سماجی کاموں میں شامل ہو گئیں، انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے متاثرین کے لیے لگائے گئے کیمپوں کے دورے کیے۔
درشہوار نے حیدرآباد میں لڑکیوں کے لیے سکول کا افتتاح کیا۔ درشہوار جنرل ہسپتال قائم کیا اور 1936 میں حیدرآباد کے بیگم پٹ ایئرپورٹ کے پہلے ٹرمینل کا افتتاح کیا۔
دونوں شہزادیوں کی طلاق
درشہوار کی خوبصورتی اور کاموں کے چرچے جلد پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ ان کے دو بیٹے شہزادہ مکرم جاہ اور مفخم جاہ ہوئے مگر یہ رشتہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکا۔
اس کی بڑی وجہ تہذیبی و ثقافتی تفاوت تھا۔ شہزادی بظاہر خلیفہ کی بیٹی تھیں، مگر تعلیم یافتہ اور جدت پسند تھیں جبکہ نظام کا خاندان امیر ضرور تھا مگر قدامت پرست تھا۔
ٹائم میگزین نے لکھا کہ شہزادہ اعظم جاہ سے سکاٹ لینڈ میں گھوڑوں کی دوڑ کے ایک مقابلے میں شادی سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’مجھے گھوڑے پسند ہیں، وہ عورت سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔ اگر آپ گھوڑے سے گر جائیں تو یہ اس وقت تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتا جب تک آپ دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوجاتے۔‘
ان خیالات کے باوجود انہوں نے اپنے والد کے حکم کی بجا آوری کی مگر آگے چل کر یہ شادی علیحدگی پر منتج ہوئی۔ اعظم جاہ کی 50 لونڈیاں بھی تھیں اور انہیں جوئے کا بھی شوق تھا مگر درشہوار نے ممکن حد تک تعلق نبھانے کی کوشش کی۔
طلاق کے بعد درشہوار کچھ عرصہ حیدرآباد میں ہی رہیں لیکن پھر وہ اپنے بچوں کو لے کر لندن منتقل ہو گئیں۔ وہ جب بھی انڈیا آتی تھیں انہیں میڈیا کی جانب سے سپر سٹار کا درجہ دیا جاتا تھا۔
2006 میں ان کا 93 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ ان کے شوہر اعظم جاہ 1970 میں ہی انتقال کر چکے تھے۔
درشہوار کی طرح نیلوفرکی شادی بھی زیادہ عرصہ چل نہیں سکی، اس کی بڑی وجہ اولاد کا نہ ہونا تھا۔ 1948 میں معظم جاہ نے دوسری شادی کر لی، جس پر نیلوفر اپنی والدہ کے پاس فرانس چلی گئیں۔
چار سال بعد جوڑے میں علیحدگی ہو گئی۔ علیحدگی کے بعد انہیں جو رقم ملی، اس سے انہوں نے 1953 میں حیدر آباد میں زچہ بچہ کے لیے 100 بیڈ کا ایک ہسپتال بنوایا۔
درشہوار کی طرح نیلوفر بھی اپنی خوبصورتی میں بے مثال تھیں، انہیں ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرنے کی آفر بھی ہوئی۔
1963 میں نیلوفر نے ایک امریکی کاروباری شخصیت اور فلم پروڈیوسر ایڈورڈ جے پوپ سے شادی کر لی۔
نیلوفر کا انتقال 1989 میں پیرس میں ہوا۔ درشہوار اور نیلوفر ہندوستان آئیں، یہاں رہیں مگر آباد نہیں ہو سکیں۔
لیکن ہندوستان کے ہر شہر اور دیہات میں ان کے نام پر لوگوں نے اپنی بیٹیوں کے نام رکھے۔ یہ علامت تھی کہ لوگ ان شادیوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے مگر آج ہم نہیں جانتے کہ درشہوار کون تھیں اور نیلو فرکون تھیں؟