پاکستان کا افغانستان پر ’دہشت گردی‘ کے خلاف مشترکہ کارروائی پر زور

اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے افغان وزیر صنعت و تجارت سے ملاقات میں پاکستان کے نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ تجارت اور علاقائی رابطوں سے تب ہی فائدہ اٹھایا جا سکے جب ’دہشت گردی‘ کے خلاف مشترکہ کارروائی کی جائے۔

افغانستان کے عبوری وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی 14 نومبر 2023 کو پاکستانی نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ملاقات کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباسی جیلانی نے افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت حاجی نورالدین عزیزی سے اسلام آباد میں ملاقات میں ’دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی‘ پر زور دیا ہے تاکہ تجارت اور علاقائی رابطوں کی افادیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔

پاکستانی وزارت خارجہ سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستان افغانستان کے ساتھ باہمی مفادات پر مبنی تعلقات کے لیے پرعزم ہے۔‘

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کے خلاف کابل حکومت کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔

گذشتہ ہفتے افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی نے ایک یوٹیوب چینل ’دی ایمبیسیڈرز لاؤنج‘ میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے چھ ہزار جنگجو افغانستان میں سکون سے رہ رہے ہیں اور پاکستانی سرحد پر حملوں میں ملوث ہیں۔

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی رواں ماہ ایک پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 65 فیصد جبکہ خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایک اعلیٰ سطح کا افغان وفد سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے پیر کو اسلام آباد پہنچا تھا جو آج پاکستانی حکام کے ساتھ تجارت اور دیگر معاملات پر بھی بات چیت کرے گا۔

پاکستان، ازبکستان اور افغانستان اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن ہیں جو 1985 میں اس خطے میں ترقی، تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی ایک بین الحکومتی تنظیم ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں آمد کے چند ہی گھنٹوں کے دوران افغان وفد کی ملاقات پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کے ساتھ ہوئی جس میں دو طرفہ تعلقات پر گفتگو کی گئی۔

اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ایکس اکاؤنٹ سے کی جانی والی پوسٹ کے میں بتایا گیا ہے کہ اس ملاقات میں وفد نے افغان تاجروں کا کراچی کی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے تجارتی سامان اور افغان پناہ گزینوں کی املاک کو منتقل کیے جانے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

یہ سہ فریقی اجلاس تاشقند میں 16ویں ای سی او کے سربراہی اجلاس کے چند دن بعد ہو رہا ہے جس میں پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے رکن ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ خطے میں غیر استعمال شدہ تجارتی صلاحیت سے فائدہ اٹھائیں۔

اسلام آباد میں افغان سفارت خانے نے پیر کو جاری ایک بیان میں بتایا کہ افغان وفد کی قیادت طالبان انتظامیہ کے وزیر تجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’افغانستان کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد تجارت و صنعت کے وزیر حاجی نورالدین عزیزی کی قیادت میں افغانستان، ازبکستان اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچ گیا ہے جو سہہ فریقی بات چیت کے علاؤہ پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور سفری معاملات پر بھی بات چیت کریں گا۔‘

اسلام آباد میں افغان وفد کی آمد پاکستانی حکومت کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (اے ٹی ٹی) پر کنٹرول سخت کرنے کے اقدامات کا اعلان کرنے اور کئی اشیا پر فیس عائد کرنے کے اعلان کے چند ہفتے بعد ہوئی ہے جس میں کپڑے اور ہر قسم کے ٹائر سمیت 210 سے زائد اشیا کی تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

پاکستان غیر قانونی پناہ گزینوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کر رہا ہے جن میں زیادہ تعداد افغان باشندوں کی ہے جس سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے اور دونوں اطراف سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان نے یکم نومبر کی میعاد ختم ہونے کے بعد دستاویز کے بغیر ملک میں رہنے والے غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔

پاکستانی حکومت کے مطابق ملک میں موجود کل 40 میں سے 17 لاکھ افغانوں کے پاس کوئی دستاویزات نہیں تھیں۔ حکام کے مطابق ملک بدری کا حکم اس سال پاکستان میں خودکش بم دھماکوں اور دہشت گردی میں اضافے کے بعد دیا گیا تھا جس کے بارے میں حکومت نے کہا تھا کہ ان حملوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ کابل نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے رواں ماہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے پاکستان کے سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے اپنی سرزمین پر موجود سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔

انہوں نے رواں ماہ اسلام آباد میں ایک نیوزکانفرنس کے دوران کہا تھا کہ بعض معاملات میں طالبان حکام کی ’سہولت کاری‘ کے کچھ ثبوت بھی موجود ہیں۔

تاشقند میں ای سی او سربراہی اجلاس سے قبل وزیر اعظم کاکڑ کا سخت الفاظ میں بیان افغانستان کے ساتھ پاکستان کی عدم اطمینان کا پہلا اعلیٰ سطح پر کیا گیا عوامی مظاہرہ تھا جو دونوں ممالک کے درمیان ماضی کے خوشگوار تعلقات کے خاتمے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان