17 ہزار فلسطینییوں کی موت: جانی نقصان کی گنتی کیسے کی جاتی ہے؟

اسرائیلی جارحیت کے پہلے چھ ہفتے میں غزہ بھر کے ہسپتالوں کے مردہ خانوں نے الشفا ہسپتال کو اموات کے اعدادوشمار بھیجے۔ وزارت صحت نے ہسپتال کو جانی نقصان کی گنتی کے لیے مرکز بنایا تھا۔

غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تب اب تک کم از کم 17 ہزار 487 فلسطینی شہری جان سے جا چکے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ہر ایک گھنٹے بعد غزہ میں انسانی بحران بدتر ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ یہاں موجود 23 لاکھ مکینوں میں سے زیادہ تر بے گھر ہونے کے بعد جنگ زدہ چھوٹے سے ساحلی علاقے میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں جہاں خوراک، پانی، طبی سہولیات، ایندھن یا محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔

بنیادی ڈھانچے کی تباہی، فون اور انٹرنیٹ سروسز میں بار بار خلل اور صحت کے متعدد ماہرین کی موت یا ان کے لاپتہ ہونے کی وجہ سے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ غزہ میں صحت کے حکام اموات کے درست اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

اب تک اموات کی گنتی کیسے کی گئی ہے؟

اسرائیلی جارحیت کے پہلے چھ ہفتے میں غزہ بھر کے ہسپتالوں کے مردہ خانوں نے الشفا ہسپتال کو اموات کے اعدادوشمار بھیجے۔ وزارت صحت نے ہسپتال کو اس مقصد کے لیے مرکز بنایا تھا۔

حکام نے جان سے جانے والے فلسطینیوں کے نام، عمر اور شناختی کارڈ نمبر درج کے لیے ایکسل شیٹس کا استعمال کیا اور انہیں رام اللہ میں فلسطینی وزارت صحت کو منتقل کیا۔ رام اللہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کا حصہ ہے جسے اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں محدود خود مختاری حاصل ہے۔

تاہم رام اللہ کی وزارت کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ڈائریکٹر عمر حسین علی کا کہنا ہے کہ ’الشفا ہسپتال میں ڈیٹا سینٹر چلانے والے چار اہلکاروں میں سے ایک کی جان ہسپتال پر فضائی حملے میں گئی۔ دیگر تین لوگ اس وقت لاپتہ ہو گئے جب اسرائیلی فورسز نے ہسپتال کو حماس کا مبینہ ٹھکانہ قرار دے کر اس پر قبضہ کر لیا۔‘

عراق پر امریکی حملے میں ہونے والی اموات کا ریکارڈ رکھنے کے لیے بنائے گئے ادارے کے اہلکار حميد دردغان کا کہنا ہے کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے اموات کا ریکارڈ رکھنے میں جو کام ضروری ہے وہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ معلومات حاصل کرنے کا بنیادی ڈھانچہ اور صحت کے نظام کو منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے۔‘

دردغان کا ادارہ وزارت صحت کے اعدادوشمار کو کام میں لا کر، سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا اطلاعات پر نظر رکھتے ہوئے غزہ میں ہونے والی اموات کا ریکارڈ رکھنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔

یکم دسمبر کو ایک ہفتے کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے اموات کی تازہ ترین معلومات جو عام طور پر روزانہ فراہم کی جاتی تھیں، بے قاعدگی کا شکار ہو گئی ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے آخری اپ ڈیٹ جمعے کو وزارت کے ترجمان اشرف القدرہ کی جانب سے جاری کی گئی جس کے بعد اموات کی تعداد 17 ہزار 487 ہو گئی۔ ہفتے کی صبح ترجمان نے بتایا کہ گذشتہ 24 گھنٹے کے دوران مزید 71 افراد کی جان گئی اور 160 زخمیوں کو الاقصیٰ ہسپتال پہنچایا گیا۔

القدرہ، جو اس سے قبل رواں ہفتے تقریباً دو دنوں تک رابطے میں نہیں تھے، نے جنوبی غزہ کے نصر ہسپتال سے ایک مختصر نیوز کانفرنس میں بات کی، جہاں طبی عملے نے بری طرح زخمی ہونے والے چھوٹے بچوں، خواتین اور مردوں کا پورے ہفتے علاج کرنے کی کوشش کی۔

فلسطین کی وزیر صحت مي الكيلة نے منگل کو کہا کہ غزہ میں صحت کی خدمات ’تباہ حال‘ ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے عملے کے 250 سے زیادہ لوگوں مار دیا اور کم از کم 30 کو گرفتار کر لیا ہے۔

کیا اموات کے شائع شدہ اعدادوشمار جامع ہیں؟

نہیں، ماہرین نے روئٹرز کو بتایا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہماری نگرانی سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت صحت کی جانب سے اموات کے اعداد و شمار کم بتائے جا رہے ہیں کیوں کہ ان میں ان لوگوں کی اموات شامل نہیں ہیں جو ہسپتال نہیں پہنچے یا ملبے تلے دب گئے۔‘

ییل سکول آف پبلک ہیلتھ میں ہیومینیٹیرین ریسرچ لیب کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نتھانیئل ریمنڈ، جنہوں نے 20 سال سے زیادہ عرصہ مسلح تنازعات اور قدرتی آفات میں ہونے والی اموات کی گنتی پر کام کیا ہے، نے کہا کہ ’یہ ایک منطقی مفروضہ ہے کہ رپورٹ کی جانے والی تعداد کو کم سمجھا جاتا ہے۔‘

طبی جریدے دا لانسیٹ کے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی 26 اکتوبر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ کم از کم ایک ہزار لاشیں برآمد نہیں کی جا سکیں یا مردہ خانوں میں نہیں لائی جا سکیں۔ مضمون میں ان خاندانوں کا حوالہ دیا جن سے غزہ میں صحت کے حکام نے بات چیت کی۔

غزہ کی وزیر صحت مي الكيلة نے منگل کو کہا کہ ملبے تلے دبی لاشوں کی تعداد اب ہزاروں تک پہنچ گئی ہے اور غزہ کی شہری دفاع فورس کا کھدائی کا زیادہ تر سامان فضائی حملوں میں تباہ ہو چکا ہے۔

اب تک ہونے والی اموات کے اعدادوشمار کتنے قابل اعتماد ہیں؟

صحت عامہ کے ماہرین نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ 2017  کی مردم شماری اور اقوام متحدہ کے تازہ سروے کی بدولت اسرائیلی جارحیت سے قبل غزہ کی آبادی کے اعدادوشمار بہت درست تھے اور صحت سے متعلق معلومات کا نظام مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک کے مقابلے میں بہتر تھا۔

لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی پروفیسر اونا کیمپ بیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی صحت کے حکام نہ صرف لڑائی کے دوران بلکہ بنیادی اعدادوشمار کو برقرار رکھنے اور عام طور پر اموات پر نظر رکھنے کے طریقہ کار کی بدولت دیرینہ ساکھ کے مالک ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے ان پر انحصار کرتے ہیں۔

ییل یونیورسٹی کے ریمنڈ نے کہا کہ ’ڈیٹا جمع کرنے کی فلسطینی صلاحیتیں پیشہ ورانہ ہیں اور وزارت کے بہت سے عملے کو امریکہ میں تربیت دی گئی ہے۔ وہ اعدادوشمار کی درستی یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔‘

26 اکتوبر کو فلسطینی اتھارٹی کی وزارت صحت نے 212 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی جس میں فضائی حملوں میں جان سے جانے والے سات ہزار 228 فلسطینیوں کے نام، عمر اور شناختی نمبر درج کیے گئے تھے کیوں کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اموات کے اعدادوشمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔

کیمپبیل اور دو دیگر ماہرین تعلیم نے 26 نومبر کو میڈیکل جرنل لانسیٹ کی رپورٹ کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی صداقت پر شک کرنے کی کوئی واضح وجہ نہیں ہے۔ محققین نے لکھا کہ ’ہم اس بات کو غیرمعقول سمجھتے ہیں کہ یہ نمونے (شرح اموات کے) اعدادوشمار میں ردوبدل کر کے تیار کیے گئے ہوں گے۔‘
فلسطینی اتھارٹی کی وزارت صحت نے اس طرح کی تفصیلی رپورٹ جاری نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا غزہ کے ساتھ رابطہ کمزور ہو رہا ہے۔

17  اکتوبر کو غزہ شہر کے الاہلی العربی بپٹسٹ ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں ہونے والی اموات کے اعدادوشمار پر سوالات اٹھائے گئے۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس دھماکے میں 471 افراد کی جان گئی۔

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں ہوا لیکن اسرائیل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت بیرونی گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر فلسطینی راکٹ غلطی سے گرنے کی وجہ سے ہوا۔ امریکی انٹیلی جنس کی ایک غیر خفیہ رپورٹ میں اموات کی تعداد کا تخمینہ 100 سے 300 کے درمیان لگایا گیا۔

تاہم مجموعی طور پر بین الاقوامی اداروں نے فلسطینی شہریوں کی اموات کے اعدادوشمار کے قابل اعتماد ہونے کی تصدیق کی ہے۔

اسرائیل کیا کہتا ہے؟

ایک سینیئر اسرائیلی عہدے دار نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ غزہ میں اب تک جان سے جانے والوں کی تعداد کا تخمینہ 10 ہزار سے کم لیکن پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ اندازہ کیسے لگایا گیا۔

اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ فلسطینی حکام نے پیر تک ہونے والی اموات کی جو 15 ہزار کی مجموعی تعداد بتائی وہ ’کم و بیش‘ درست ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور محققین کا کہنا ہے کہ شہری اموات کی بڑی تعداد حماس کے سرنگوں کا نیٹ ورک تباہ کرنے کے مقصد سے استعمال کیے جانے والے بھاری ہتھیاروں جیسے ’بنکر بسٹر‘ بم اور رہائشی علاقوں پر حملوں کے نتیجے میں ہوئیں۔

جان سے جانے والے بچوں اور بالغ افراد کی تعداد کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے قواعدوضوابط کے ساتھ ساتھ اسرائیلی اور فلسطینی قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر فرد کو بچہ کہا جاتا ہے۔

فلسطین کی وزارت صحت نے منگل کو کہا کہ غزہ میں جان سے جانے والوں میں 70 فیصد خواتین اور 18 سال سے کم عمر کے بچے بھی ہیں لیکن وزارت نے 26 اکتوبر کی اپنی رپورٹ کے بعد سے عمر کے حوالے سے کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دا لانسیٹ کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ وزارت کی رپورٹ میں اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سات سے 26 اکتوبر کے درمیان ریکارڈ کی گئی اموات میں سے 11.5 فیصد بچے شامل ہیں جن کی عمر چار سال تک ہے۔ پانچ سے نو سال تک عمر کے 11.5 فیصد، 10 سے 14 سال کے 10.7 فیصد اور 15 سے 19 سال کے 9.1 فیصد بچے زندگی سے محروم ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’30 سے 34 سال کی عمر کے مرد حضرات کی تعداد زیادہ ہے، مثال کے طور پر بم دھماکوں کے مقامات پر سب سے پہلے اطلاع دینے والے صحافی اور وہ لوگ جو اپنے اہل خانہ کے لیے پانی اور خوراک کی تلاش میں باہر جاتے ہیں۔

کیا اب اموات کی تعداد جارحیت کا نتیجہ بن سکتی ہے؟

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے غزہ میں نمائندے رچرڈ پیپرکورن نے منگل کو کہا کہ اسرائیل کی جارحیت کا نیا مرحلہ جو یکم دسمبر سے غزہ کے جنوبی نصف حصے میں پھیل رہا ہے، نے اموات کے قابل اعتماد اعدادوشمار جمع کرنے کی گنجائش کو مزید کم کر دیا ہے۔

پیپرکورن کے مطابق: ’جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ عام طور پر ہمیں وزارت صحت سے (اعدادوشمار) ملتے ہیں اور پہلے ہی کئی دنوں سے یہ اندازوں پر مبنی ہیں۔ یہ کام وزارت صحت کے لیے مزید مشکل ہو گیا ہے۔‘

ماہرین کا یہ کہنا کہ محکمہ صحت کے ان حکام کے لیے کام کرنا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے جو پہلے مستعد تھے، اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی خوفناک تعداد کی جانب اشارہ ہے۔

ییل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ریمنڈ نے کہا کہ ’یہ ایک خوفناک علامت ہے جب آپ کسی ایسے مقام پر پہنچ جائیں جہاں سوڈان پہنچ چکا ہے جہاں آپ کے پاس اموات کا ریکارڈ بھی نہیں۔ یہ صورت حال بذات خود ہم امدادی کارکنوں پر ظاہر کرتی ہے کہ حالات بدترین ہو چکے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا