پاکستان کی وہ جھیلیں جو سردی میں کھیل کے میدان بن جاتی ہیں

سردی کے موسم میں جم کر میدان بن جانے والی جھیلوں میں پھنڈر جھیل بھی شامل ہے مگر یہاں مقامی بچوں کے علاوہ کوئی باہر سے کھیلنے نہیں آتا۔ شہر سے دوری بھی ایک سبب ہے کہ یہاں کوئی فیسٹیول نہیں ہوتا۔

24 جنوری 2021 کو ایک سیاح سکردو سے تقریبا چھ کلومیٹر دور شنگریلا ریزورٹ میں لوئر کچورا جھیل کی تصاویر لے رہا ہے (اے ایف پی / عامر قریشی)

پاکستان کے شمال میں جہاں قدم قدم پر فطرت اپنا حسن نچھاور کیے ہوئے ہے وہاں ہر موسم ان وادیوں کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔

گرم دنوں میں جو جھیلیں دیکھنے والی ہر آنکھ کو نہ بھولنے والا نیلگوں منظر عطا کرتی ہیں، سردی میں وہی جھیلیں کھیل کے میدان بن جاتی ہیں۔ ایسی خوبصورت جھیلیں دونوں موسموں میں اپنے مزاج تو بدل لیتی ہیں مگر ان کا رنگ وہی نیلا رہتا ہے۔

خنجراب روڈ پر ہنزہ سے چند کلومیٹر کی مسافت پر برلب سڑک عطا آباد جھیل شمال کی ان جھیلوں میں سے ایک ہے جو سیاحوں کو آسانی سے دستیاب ہے۔ یہ جھیل 2010 میں پہاڑی تودہ گرنے سے حادثاتی طور پر وجود میں آئی تھی۔

گرمی میں اس جھیل کے پانی کشتیوں کی موٹروں سے ہلچل مچاتے ہیں تو چھینٹے قراقرم ہائی وے سے جا ٹکراتے ہیں اور سردی میں یہی جھیل برف کے فرش کے ساتھ کھیل کے میدان میں بدل جاتی ہے۔ عطا آباد جھیل پر طرح طرح کے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔

گلگت شہر سے براستہ غذر ایک سڑک چترال کی طرف جاتی ہے۔ گوپس سے چند کلومیٹر آگے ایک اور جھیل ہے جسے خلتی لیک کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک حادثے کے نتیجے میں بنی اور یہ حادثہ درجن بھر انسانی جانوں کا تاوان لے گیا۔

سطح سمندر سے 7273 فٹ بلند اور 80 فٹ گہری خلتی جھیل سٹرک کے کنارے آباد ہے اس لیے جب یہ برف کے میدان میں بدلتی ہے تو ایک آباد سٹیڈیم کا روپ دھار لیتی ہے۔

ہر سال جنوری میں یہاں سپورٹس میلہ سجتا ہے جسے دیکھنے کے لیے ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں پہنچتے ہیں۔ جھیل کے برفانی میدان پر کھیلنے والے کھلاڑیوں نے پھسلنے سے بچاؤ کے لیے نوکیلے تلووں والے جوگرز اور برف کی چوٹ سے تحفظ دیتی کٹ پہن رکھی ہوتی ہے۔

سپورٹس فیسٹیول کے انتظامات کسی بھی بین الاقوامی مقابلے کے برابر ہوتے ہیں جہاں پر تشہیری ہورڈنگز اور نشریاتی سہولتیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ فٹ بال اور ہاکی کے علاوہ دیگر مقامی کھیل بھی کھیلے جاتے ہیں۔

سردی کے موسم میں جم کر میدان بن جانے والی جھیلوں میں پھنڈر جھیل بھی شامل ہے مگر یہاں مقامی بچوں کے علاوہ کوئی باہر سے کھیلنے نہیں آتا۔ شہر سے دوری بھی ایک سبب ہے کہ یہاں کوئی فیسٹیول نہیں ہوتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکردو کی اپر کچورا جھیل بھی کھیل کے میدان میں بدل کر کھلاڑیوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے مگر یہاں کھیل کے مقابلے منعقد نہیں ہوتے۔ دیوسائی پر واقع شیوسر جھیل تک تو سردیوں میں پہنچنا ممکن ہی نہیں ہوتا اس لیے وہاں پر انسانی سرگرمیوں کا انعقاد مشکل ہے۔ سردی کے موسم میں نو گو ایریاز بن جانے والی جھیلوں میں شیوسر، ڈومیل، نلتر اور کرومبر شامل ہیں۔

شیندور جھیل بھی کھیل کا شاندار میدان بن جاتی ہے مگر وہاں تک پہنچا دلدل کو عبور کرنے کے مترادف ہے۔

سردی میں جم کر پتھر ہو جانے والی جھیلیں تو سیکڑوں ہیں مگر میدان صرف انہی جھیلوں کے آباد ہوتے ہیں جہاں تک راستے جاتے ہیں۔ اس لیے قراقرم ہائی وے پر واقع عطا آباد جھیل اور غذر چترال روڈ پر موجود خلتی جھیل آسان رسائی کی وجہ سے سپورٹس فیسٹیولز کے لیے مناسب میدان ثابت ہوتے ہیں۔

یوں تو ناران کے پہلو میں سیف الملوک جھیل تک لوگ سردیوں میں بھی پہنچتے ہیں مگر وہاں پر کبھی کھیلوں کا انعقاد نہیں کیا گیا۔ جھیل لو لو سر بھی جم کر پتھر ہو جاتی ہے مگر کھلاڑیوں کا رجحان اس طرف کبھی نہیں ہوا۔

عطا آباد جھیل پر فٹ بال اور ہاکی کے علاوہ گاڑیوں کے کرتب دکھانے والے ڈرائیورز برف پر گاڑیوں کو یوں گھماتے ہیں کہ سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ