بچپن میں اگر کوئی کھیل سخت بورنگ لگتا تھا تو وہ کرکٹ تھا۔ سفید کپڑے پہنے کچھ لوگ ایک میدان میں بلاوجہ ایک گیند کے پیچھے خوار ہو رہے ہوتے تھے۔ ان سے بھی زیادہ بور شکلوں کے لوگ سٹیڈیم میں بیٹھے اس ایک کبوتر سے نالاں ہوتے تھے جو ساری خدائی چھوڑ کے ان کے کوٹ پہ بیٹ کرنے آتا تھا۔
یہ پانچ روزہ کرکٹ میچ کا زمانہ تھا۔ پی ٹی وی پہ فرض کی طرح یہ لمبے لمبے ٹیسٹ میچ دکھائے جاتے تھے۔ ہمارے سکول میں سب سے نالائق بچے کرکٹ کھیلتے تھے اور اکثر گھٹنے، کہنیاں چھلوا کے ڈسپنسری پہ کھڑے ڈھٹائی سے ہنس رہے ہوتے تھے۔
ہمیں تو پسند تھا سکواش یا پھر ٹینس کا کھیل۔ جمے جمائے بالوں والے تمیز کے دو ایک کھلاڑی، ایک ریکٹ، مختصر کھیل، صاف ستھرے تماش بین اور سکواش میں اس بات کی تو پکی گارنٹی ہوتی تھی کہ پاکستان ہی جیتے گا۔
کرکٹ ناپسند ہونے کی اور بھی کئی وجوہات تھیں لیکن سب سے بڑی وجہ اس کھیل کی طوالت تھی۔ مگر پھر یہ ہی کھیل نہ صرف مقبول ہوا، گلی گلی میں کھیلا گیا بلکہ پاکستان ورلڈ کپ بھی جیت لایا۔
یہ اور بات کہ 11 کھلاڑیوں نے مل کے ایک بار ورلڈ کپ جیتا تھا اور سکواش میں ایک اکیلا ہی سالہا سال ورلڈ کپ جیتتا تھا۔ بہرحال مقبولیت کرکٹ کو ملی۔ سفید یونیفارم بدلی، کھیل کے اصول تبدیل ہوئے، کھیل میں تیزی آئی، رات کی کرکٹ نے کبوتروں کا مسئلہ حل کیا اور او ڈی آئی کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی متعارف ہوا۔
کسی نہ کسی طور ہم بھی اس کھیل کے مداح ہوئے۔ اتنی لمبی کرکٹ ٹیم کے نام یاد کیے، بورز کے بولنگ ایکشن، بیٹسمین کے انداز، فیلڈر کی پکڑ اور کپتان کے زیرک ہونے کا پہاڑا رٹا۔
اب ڈھونڈ ڈھونڈ کے ہر میچ دیکھا کرتی ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مداح بہت جذباتی بھی ہوتے ہیں۔ بری کارکردگی اور فٹنیس کی کمی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔
سلیکٹرز سے زیادہ انہیں سمجھ بوجھ ہوتی ہے۔ یقین نہ ہو تو کسی بھی گلی محلے کے کرکٹ گراؤنڈ میں جا کے تبصرہ سن لیجیے۔ بڑے سے بڑا مبصر بھی کرکٹ کو ایسے نہیں سمجھ سکتا جیسے ہماری محلہ کرکٹ والے احباب۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جاری ہے۔ کاؤبوائے بنے ہمارے لڑکے کاؤبوائز سے ہار گئے۔ سب کو بہت دکھ ہے اور کیوں نہ ہو؟ جنگیں ونگیں تو ہم لڑتے نہیں کہ لڑائی کرنا گندی بات ہوتی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ہم بس گھسٹ ہی رہے ہیں۔
فلم ہم بنا نہیں سکتے، معیشت ہماری ڈوبی پڑی ہے، سماج ہمارا فنا ہو چکا ہے، ہاکی، سکواش اور دیگر کھیلوں میں بھی ہم فارغ ہو چکے ہیں۔ لے دے کہ ایک کرکٹ کا میدان ہے جہاں گیارہ کم عمر لڑکوں کے کندھوں پہ ساری قوم کی توقعات ہیں۔
برے بھلے ہم جیسے بھی ہیں، ایک جذباتی قوم ہیں اور آج کل ہمارے جذبات سخت چھڑے ہوئے ہیں۔ میری پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لڑکوں سے گزارش بھی ہے اور نصیحت بھی کہ وہ باتیں جو آپ کو سمجھائی گئی ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کے صرف جیت کے لیے میدان میں اتریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو بھی یہ کہتا ہے کہ تم جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے، وہ بالکل غلط کہتا ہے اور یقیناً کسی موٹیویشنل سپیکر سے ڈکٹیشن لیتا رہا ہے۔
ہارنے والوں سے کوئی محبت نہیں کرتا۔ ان پہ صرف ترس کھایا جاتا ہے۔ محبت، عزت، دولت صرف جیتنے سے ملتی ہے اور آپ کو کون سا سکندر مقدونی کی طرح سچ مچ دنیا کے طول و عرض میں دوڑنا پڑے گا۔
ایک ذرا سا تو میدان ہے اور ایک ننھی سی گیند۔ اتا سا بلا اور فقط 20 اوورز۔ ساری ٹیمیں آپ جیسی ہی ہیں۔ ہر ٹیم کا ایک کمزور پہلو ہے۔ بس اسے تکا لیجیے۔ اپنی مضبوطی بھانپ لیجیے اور بس۔ بم وم چلانے کو تو ہم کہہ بھی نہیں رہے۔ گیند بلا کھیلنے جوگے تو آپ ہیں ہی نا؟
آپ اس وقت کھیلنے تو کرکٹ ہی گئے ہیں مگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ساری باریکیاں بھی آپ کے کھیل پہ منحصر ہیں۔ کرکٹ ڈپلومیسی تو آپ نے سنا ہی ہو گا۔ دفتروں میں بیٹھنے والے سفیروں کو تو شاز ہی کوئی جانتا ہو گا ہمارے اصل سفیر آپ ہی ہیں۔
ہر شاٹ وننگ شاٹ سمجھ کر کھیلیں گے تو کامیاب ہوں گے۔ ’مگروں لاؤ‘ کرکٹ آپ کو کچھ بھی نہیں دے گی۔ پیسہ اور شہرت کامیابی کے بائی پروڈکٹس ہیں۔ شہرت کے دیگر بائی پروڈکٹس کے بارے میں آپ مجھ سے زیادہ تفصیل سے جانتے ہیں۔
تو پیارے بچو!! ایک بار ورلڈ کپ جیت کر لانے والے کو ہم کھیلنے کے لیے پورا ملک دے دیتے ہیں۔ ہمت کریں ذرا بھی مشکل کام نہیں ہے۔ کپ لے کر آئیں، ایئر پورٹ پر ملیں گے اور مل کر چائے پیئیں گے۔
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔