ملالہ یوسفزئی غزہ پر زیادہ بولتی ہیں یا افغانستان پر؟

ملالہ یوسفزئی 2023 میں اس وقت تنقید کی زد میں آئیں جب سوشل میڈیا صارفین کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پر غزہ پر جارحیت کے خلاف واضح الفاظ میں اسرائیل کی مذمت نہیں کی مگر افغانستان کے حالات پر وہ کھل کر تنقید کرتی رہیں۔ 

نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی 12 جولائی 2024 کو لندن میں اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران پورٹریٹ کے لیے پوز کرتے ہوئے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

نوبیل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسفزئی 2023 میں اس وقت تنقید کی زد میں آئیں جب سوشل میڈیا صارفین کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پر غزہ پر جارحیت کے خلاف واضح الفاظ میں اسرائیل کی مذمت نہیں کی جب کہ افغانستان کے حالات پر وہ واشگاف الفاظ میں اپنا موقف بار بار بیان کرتی رہیں۔ 

ان کا افغانستان پر تازہ بیان بی بی سی ایشیا سے بات کرتے ہوئے سامنے آیا جس میں ملالہ نے کہا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ خواتین کے حقوق اتنی آسانی سے پامال ہوں گے۔

امن کا نوبل انعام جیتنے والی 27 سالہ ملالہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’لڑکیاں مایوسی اور ڈپریشن میں دن اور راتیں گزارتی ہیں اور انہیں موجودہ صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ ان کا مستقبل انہیں بہت تاریک لگتا ہے۔‘

ان کے ناقدین ان کے افغانستان اور غزہ پر بیانات کا سوشل میڈیا پر موازنہ کرتے ہوئے دکھائے دیتے ہیں۔

7 اکتوبر، 2023 کو حماس نے اسرائیل میں کارروائی کی تھی جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، بعد ازاں سلسلے کو توسیع دیتے ہوئے زمینی کارروائی کا بھی آغاز کر دیا۔

یہ جنگ نہتے اور زیر محاصرہ فلسطینیوں کے خلاف طویل ترین جنگ کا ریکارڈ بھی ہے اور اسرائیلی جنگی جرائم کی بدترین مثال بھی۔

ایسی حالت میں خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق کے حق میں بولنے والی ملالہ یوسفزئی کا پہلا بیان ایکس پر 10 اکتوبر 2023 کو آیا جہاں ان کا کہنا تھا کہ ’میں بھی جنگ بندی کا فوری مطالبہ کرتی ہوں، جنگ کبھی بھی بچوں کو نہیں بخشتی، نہ اسرائیل میں ان کے گھروں سے اغوا ہونے والوں کو، نہ فضائی حملوں سے چھپے ہوئے یا غزہ میں خوراک اور پانی کے بغیر رہنے والوں کو۔‘

اس بیان کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے ملالہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ وہ کھل کر غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بارے میں نہیں بولیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

25 اپریل، 2024 کو ملالہ کا ایک اور وضاحتی بیان سامنے آیا جہاں ایکس پر ہی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’ گذشتہ چھ ماہ سے فلسطین میں جاری مظالم کو دیکھ کر شدید غصہ آتا اور مایوسی ہوتی ہے۔

’یہ سب دور سے دیکھنا ہی کافی مشکل ہے، میں نہیں جانتی کہ فلسطینی یہ تکالیف کس طرح برداشت کررہے ہیں، ہم اب مزید لاشیں، سکولوں بر بم باری اور بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کو نہیں دیکھ سکتے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’رواں ہفتے غزہ کے نصریہ اور الشفا ہسپتال میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں نے فلسطینوں پر ہونے والے ہولناک مظالم کا واضح ثبوت پیش کیا ہے۔ غزہ میں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے‘۔

صارفین کی جانب سے جب یہ کہا جا رہا تھا کہ ملالہ فلسطین اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے اس انداز میں بات نہیں کر رہیں جس طرح وہ افغانستان میں طالبان پالیسیوں پر تنقید کرتی ہیں۔

صارفین کے ان بیانات پر انڈپینڈنٹ اردو نے ملالہ کی سوشل میڈیا پوسٹس کا تفصیلاً جائزہ لیا تو نتائج کچھ یوں تھے کہ 24 ستمبر، 2024 سے 18 نومبر، 2024 تک کی ایکس پر شیئر کی گئی پوسٹس میں سے غزہ پر یکم اکتوبر کو ان کی آخری پوسٹ آئی تھی۔

 پوسٹ میں انہوں نے غزہ متاثرین کے لیے ہنگامی امدادی فنڈ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

جبکہ افغانستان پر ان کی چھ پوسٹس تھیں۔

ان پوسٹس میں سے ایک میں انہوں نے برطانیہ کی پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی حکومت صنفی امتیاز پر مبنی ایک حکومت قرار دیں۔

11 اکتوبر کو ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ میں نے آج نیویارک میں 20 سے زائد ممالک کے سفارت کاروں کے ساتھ طالبان کی صنفی امتیازی حکومت کے تحت افغان خواتین اور لڑکیوں کے مصائب کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے کھل کر بات کی۔‘

ملالہ کے ناقدین جہاں ان کی سوچ پر سوال کھڑے کر دیتے ہیں وہیں ان کے حمایتی ان کے اقدام کو سراہتے رہتے ہیں، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ان نی ناقدانہ سوچ پر سوال اٹھتے رہیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل