کراچی میں بارش کے دوران میں آپ سہراب گوٹھ سے کیماڑی تک چلے جائیں، راہگیروں کو دیکھتے جائیں، دو چار کے ہاتھ میں پستول نظر آ سکتا ہے لیکن کسی ہاتھ میں چھتری نظر نہیں آئے گی۔
اس بار ایسی بارش ہوئی ہے کہ شاید روایت بدل جائے۔ لوگ چھتریاں لینے لگیں۔ بلکہ جس طرح کے حالات پیش آئے ہیں، کچھ عجب نہیں کہ شہری چپو یا سرفنگ بورڈ لے کر نکلا کریں۔ پیراکی سیکھنے والوں میں اضافہ بھی غیر متوقع نہیں ہو گا۔
اب کے کچھ ریکارڈ ویکارڈ ٹوٹ گئے ہیں لیکن کراچی میں ہر چند سال بعد طوفانی بارش ہوتی ہے۔ میں نے پہلی بار جولائی 85 میں ایسی بارش دیکھی تھی جو شروع ہونے کے بعد بند ہونا بھول گئی تھی۔ ایک دو سال بعد پھر ویسی بارش ہوئی۔ امی نے کہا، ’یہ بادل سات دن برسیں گے۔‘
میں نے پوچھا، ’کیوں؟‘
امی نے بتایا، ’جمعرات کو شروع ہونے والی بارش جمعرات ہی کو ختم ہوتی ہے۔‘
یاد نہیں کہ بارش پانچ دن جارہی رہی یا سات دن لیکن اتنا یاد ہے کہ انچولی کا امروہا فٹبال گراؤنڈ پانی سے ایسے بھر گیا تھا جیسے حب ڈیم۔
کراچی کچھ اس ترکیب سے بنایا گیا ہے کہ بارش ہو تو ہر علاقے کا اپنا ڈیم بن جائے۔ فیڈرل بی ایریا میں واٹرپمپ پر یہ سہولت موجود ہے۔ نارتھ ناظم آباد میں کے ڈی اے چورنگی جھیل بن جاتی ہے۔ صدر میں زیب النسا اسٹریٹ تالاب میں بدل جاتی ہے۔ ڈیفنس میں خیابان شہباز پر سوئمنگ پول تیار ہوجاتا ہے۔ شارع فیصل میں کئی مقامات پر گویا چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اخباروں کے فوٹوگرافروں کو تصویر بنانے کے لیے کہیں نہیں جانا پڑتا۔ آئی آئی چندریگر روڈ پر اتنا پانی جمع ہو جاتا ہے کہ ان کی اپنی موٹر سائیکلیں بہہ جاتی ہیں۔
مجھے 2002 میں ایک انوکھا تجربہ ہوا۔ جولائی کی 26 یا 27 تاریخ تھی اور دن بھر موسلادھار بارش ہوئی تھی۔ جنگ کے دفتر سے رات 11 بجے نکلا تو چندیگر روڈ پر کمر تک پانی تھا۔ بس ملنے کا سوال نہیں تھا۔ میں ایک ڈیڑھ میل پیدل چلا۔ راستے میں کئی رکشے ٹیکسی والے ملے لیکن کوئی 17 کلومیٹر دور انچولی جانے کو تیار نہیں ہوا کیونکہ راستے میں پانی بہت جمع تھا۔
آخر اردو بازار کے قریب ایک ٹیکسی والے نے ہامی بھر لی اور 20 منٹ میں منزل پر پہنچا دیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس نے جو روٹ اختیار کیا، اس میں کہیں پانی نہیں ملا۔ ٹیکسی والے نے اس کی وجہ بتائی کہ ندی نالوں کے قریب سڑکیں اونچی بنائی جاتی ہیں تاکہ وہ زیر آب نہ آئیں۔ یہ 18 سال پرانی بات ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب بھی کراچی میں یہ صورتحال ہے یا نہیں۔
ستمبر 2013 میں بھی ایسی طوفانی بارش ہوئی کہ پورا شہر تو ڈوبا ہی، چندریگر روڈ سے کراچی پریس کلب تک بھی دریائے صحافت و فصاحت ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ حضرت افتخار محمد چودھری ان دنوں قاضی القضاہ تھے اور اتفاق سے کراچی میں کسی اہم سیاسی مقدمے کی سماعت کررہے تھے۔ ان کی لمبی سرکاری گاڑی ایم آر کیانی روڈ پر گھٹنوں گھٹنوں پانی میں بند ہو گئی۔ انھیں عدالت پہنچانے کے لیے دوسری گاڑی منگوانا پڑی۔ اس کے بعد بادل کم گرجے، جج صاحب انتظامیہ پر زیادہ برسے۔
خیر مقدمے کی سماعت ملتوی کی جا سکتی تھی، جیسے شہر میں سارے معمولات معطل تھے، لیکن نیوز بلیٹن تو موخر نہیں کیے جا سکتے تھے۔ جیو نیوز کے پروڈیوسروں اور افسروں کو اس دن دفتر لانے کے لیے کار اور وین کے بجائے ٹرک کا انتظام کیا گیا۔
کراچی والے عام حالات میں بارش کی بہت آرزو کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ سال بھر بادل آتے ہیں اور ٹھینگا دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ساحلی شہر ہو جہاں اتنی کم بارش ہوتی ہو۔ محکمہ موسمیات بھولے سے شہر میں بارش کی پیش گوئی کردے تو خواتین پکوڑے بنانے کے لیے چولھے پر کڑاہی چڑھا دیتی ہیں، چاہے گیس نہ آ رہی ہو۔ بیکریوں کے باہر سموسے تلے جانے لگتے ہیں۔ نیوز چینلوں کے اینکر برساتی اوڑھ کر بلڈنگ کی چھت پر چڑھ جاتے ہیں کہ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ بریکنگ نیوز چلا دیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک بار میں نے عائشہ بخش کو سیڑھیاں اترتے دیکھا جو تربتر تھیں اور میک اپ بہہ جانے کی وجہ سے انھیں پہچاننا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا، ’ارے اتنی بارش ہوئی؟ نیوزروم میں ہمیں بالکل پتہ نہیں چلا۔‘ عائشہ نے تنک کے کہا، ’محکمہ موسمیات والے جھوٹی پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ میں بارش میں نہیں، پسینے میں بھیگی ہوں۔‘
لیکن ہر بار پیش گوئی غلط نہیں ہوتی۔ بلکہ کبھی کبھی تو پیش گوئی نہیں ہوتی اور تیز بارش ہو جاتی ہے۔ ایسی بارش کہ لگتا ہے، سال بھر کی دعائیں ایک ساتھ پوری ہو گئیں۔ عائشہ محنتی اینکر ہیں۔ ایک بار کراچی میں دن بھر طوفانی بارش ہوئی اور عائشہ مسلسل 16 گھنٹے تک بلیٹنز اور لائیو کوریج میں مصروف رہیں۔ میں دفتر پہنچا تو وہ میراتھون نشریات کے بعد سٹوڈیو سے نکل رہی تھیں۔ میں نے خوب تعریف کی کہ ’آج تو آپ نے کمال کر دیا!‘
وہ خفا ہو کر بولیں، ’آپ کا متبادل پروڈیوسر بارش میں پھنس کر دفتر نہیں آئے گا تو آپ کو بھی سولہ گھنٹے کام کرنا پڑے گا۔‘
کراچی میں تیز بارش سے کوئی نہ گھبرائے، اگر صرف دو مسائل حل ہو جائیں۔ بجلی بند نہ ہو اور پانی جمع نہ ہو۔ دوسرا مسئلہ سیاسی ہے اور یوسفی صاحب عشروں پہلے ایک جملے میں سب کچھ کہہ گئے تھے کہ جو کراچی آتا ہے، پھر جاتا نہیں کیونکہ یہاں نکاسی کا انتظام نہیں ہے۔