سندھ کے کسانوں کا خشک سالی سے بچنے کے لیے چھوٹے ڈیموں پر انحصار

نگرپارکر سے تعلق رکھنے والے ننجی مل کے مطابق ان کے علاقے میں بنائے گئے ڈیم نے ان کے زرعی فارم کی شکل تبدیل کر دی ہے اور اب وہ فصلیں کاشت کرنے کے لیے پورا سال اس ڈیم سے پانی حاصل کرتے ہیں۔

زراعت اور ماحولیات کے محققین کی جانب سے 2020 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کاشت کار زرعی مقاصد کے لیے 20 فیصد سے بھی کم بارش کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے جنوب مشرقی صوبے سندھ کے صحرائی علاقے نگرپارکر سے تعلق رکھنے والے ننجی مل کئی سال تک اپنے کھیتوں میں دالیں اور باجرہ کاشت کر کے روٹی روزی کے لیے جدوجہد کرتے رہے لیکن اب ان کی زرعی اراضی سرسبز اور زرخیز بن چکی ہے۔

ایسا حکومت کی جانب سے قریب ہی تعمیر کیے جانے والے نئے ڈیموں کی بدولت ہوا، جہاں سے کاشت کاری کے لیے پانی فراہم کی جاتا ہے۔کاشت کاری کے لیے قریبی ڈیموں سے پانی حاصل کر کے ننجی مل اپنے 40 ایکڑ رقبے پر پیاز، گندم اور دوسری فصلیں اگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی آمدن میں 60 سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔

59 سالہ ننجی مل نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات چیت میں کہا: 'میرے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں اپنی زندگی میں کھیتوں سے اچھی آمدنی کے قابل ہوتا، لیکن اس ڈیم نے سب کچھ ممکن بنا دیا۔'

دوسری جانب آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں خشک سالی کی بگڑتی ہوئی صورت حال جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دباؤ کا شکار زرعی صنعت کی وجہ سے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کا سامنا ہے۔

زراعت اور ماحولیات کے محققین کی جانب سے 2020 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستانی کاشت کار زرعی مقاصد کے لیے 20 فیصد سے بھی کم بارش کا پانی استعمال کرتے ہیں، جسے ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ یہ کاشت کار زیادہ تر زیر زمین اور سطح پر موجود پانی استعمال کرتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر ماحولیات مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کو امید ہے کہ زراعت کے لیے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے نئے ڈیموں سے نہ صرف کاشت کاروں کو فراہمی آب کا قابل اعتماد ذریعہ میسر ہوگا بلکہ ان سے زیر زمین پانی کی سطح میں بھی اضافہ ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ چھ سال پہلے تعمیراتی کام کے آغاز کے بعد صوبائی حکومت بارش کا پانی ذخیرہ کرنے والے 60 ڈیم بنا چکی ہے۔ ہر ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ایک لاکھ گیلن ہے۔ یہ ڈیم خشک سالی کا شکار دوردراز کے علاقوں نگر پارکر اور کوہستان میں بنائے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آئندہ دو تین برس میں مزید23 ڈیم بنائے جائیں گے۔ مرتضیٰ وہاب کے مطابق ان علاقوں میں آبادی بکھری ہوئی ہے، اس لیے ایسے قابل اعتماد اعدادوشمار دستیاب نہیں جن سے پتہ چل سکے کہ نئے ڈیموں سے کتنے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ننجی مل کے مطابق ان کے علاقے میں بنائے گئے ڈیم نے ان کے زرعی فارم کی شکل تبدیل کر دی ہے اور اب وہ فصلیں کاشت کرنے کے لیے پورا سال اس ڈیم سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ ننجی مل کا زرعی فارم ضلع تھرپارکر میں واقع ہے۔

عالمی رفاہی تنظیم واٹر ایڈ کے مطابق اس علاقے میں سالانہ صرف نو ملی میٹر بارش ہوتی ہے، جس کی وجہ سے علاقے کو اکثر خشک سالی کا سامنا رہتا ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی 17-2016 کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک میں پانی کی فراہمی محدود اور غیرمستقل ہے جبکہ نئی آبادیوں میں اضافے کی وجہ سے پانی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس صورت حال کے نتیجے میں پیدا ہونے والا عدم توازن ملک کو پانی کی شدید قلت کی طرف دھکیل رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات