ازبکستان اور طالبان کے درمیان تجارت، انسانی امداد پر مذاکرات

ازبک وزارت خارجہ کے مطابق طالبان نمائندوں کے ساتھ تازہ ترین بات چیت ازبکستان کے سرحدی قصبے ترمذ میں ہوئی جس میں تجارت اور اقتصادی مذاکرات سمیت سرحدی سلامتی کو یقینی بنانے پر بات چیت ہوئی۔

14 اکتوبر کو طالبان کے قائم مقام نائب وزیر خارجہ عامر خان متقی ترک حکام سے ملاقات کے لیے دارلحکومت انقرہ میں (اے ایف پی)

طالبان حکومت کے نمائندوں نے انسانی امداد اور تجارت پر بات چیت کے لیے وسطی ایشیا کی اہم ریاست اور افغانستان کے ہمسائے ملک ازبکستان کا دورہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ازبک وزارت خارجہ نے ہفتے کو بتایا کہ طالبان نمائندوں کے ساتھ تازہ ترین بات چیت ازبکستان کے سرحدی قصبے ترمذ میں ہوئی جس میں طالبان وفد کی قیادت افغان نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی اور ازبکستان کی جانب سے ان کے ہم منصب سردار عمرزاکوف نے کی۔

اگست میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں واپس آنے کے بعد طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ جنگ زدہ ملک میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے عالمی مدد کے خواہاں ہیں۔

افغانستان اور دنیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے سابق سوویت ریاست کا سرحدی شہر ترمذ ہوائی راستے کے ذریعے افغان عوام کے لیے بین الاقوامی انسانی امداد کے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ 

ازبکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ’تجارت اور اقتصادی مذاکرات، سرحدی سلامتی کو یقینی بنانے، توانائی کے شعبے میں تعاون، بین الاقوامی کارگو ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ جیسے امور پر بات ہوئی۔‘  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی یو این ایچ سی آر نے رواں ہفتے کہا تھا کہ مستقبل قریب میں انسانی امداد کی تین کھیپوں کو ہوائی راستے سے ترمذ اور پھر وہاں سے اسے ٹرکوں کے ذریعے افغانستان پہنچایا جائے گا۔

خطے کے دو اہم ممالک ازبکستان اور ترکمانستان نے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک مشترکہ عملی نقطہ نظر اختیار کرتے ہوئے حالیہ برسوں میں اس گروپ کے ساتھ براہ راست چینلز قائم کیے ہیں تاکہ سرحد پار انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔

تاہم وسط ایشیا کے تیسرے اہم ملک تاجکستان نے طالبان کے ساتھ سرکاری سطح پر مذاکرات سے گریز کیا ہے۔

غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد رواں ہفتے کے آغاز میں طالبان نے قطر میں امریکہ اور یورپی یونین کے مشترکہ وفد کے ساتھ پہلی بار دوبدو مذاکرات کیے جس میں برسلز نے افغانستان کے لیے ایک ارب یورو (1.2 ارب ڈالر) کی امداد کا وعدہ کیا تھا۔

اس کے علاؤہ قائم مقام افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جمعرات کو انقرہ میں ترکی کے وزیر خارجہ مولوت چاوش اوغلو سے بات چیت کی تھی۔

ترک وزیر خارجہ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بڑھتے ہوئے انسانی بحران پر قابو پانے کے لیے افغانستان کے غیر ملکی اکاؤنٹس کو غیر منجمد کرے تاہم ترکی ابھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

افغانستان ازبکستان کے لیے ضروری کیوں؟

افغانستان پر طالبان کے اقتدار کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن اس کے ہمسائیوں سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ 

اس حوالے سے کچھ ممالک اب بھی یا تو محتاط ہیں یا پھر طالبان کی زیرقیادت حکومت پر ان کا موقف مبہم ہے لیکن افغانستان کے ساتھ 160 کلومیٹر کی سرحد رکھنے والا ملک ازبکستان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت اور تجارت کرنے کے لیے تیار ہے۔

نشریاتی ادارے ریڈیو فری یورپ کے مطابق افغانستان میں ازبکستان کے شہری مختلف شدت پسند گروہوں کے رکن ہیں جن میں سے کچھ طالبان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ازبک حکومت پسند نہیں کرے گی کہ یہ لوگ ازبکستان واپس آئیں۔ طالبان نے ضمانت دی ہے کہ وہ کسی کو بھی افغان سرزمین کو پڑوسی ممالک پر حملوں کی سازش کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ازبکستان کو افغانستان کے ساتھ تعلقات منقطع کرنا مہنگا پڑے گا چاہے وہ کسی کے بھی کنٹرول میں ہو۔ درحقیقت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات 20 سال پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں اور اس کا فائدہ صرف ازبکستان اور افغانستان کو نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ہے۔ 

20 ستمبر کو افغانستان کے لیے ازبک صدر کے خصوصی نمائندے عصمت اللہ ارگشیف نے کہا کہ ان کی حکومت افغانستان کے ساتھ سڑک اور ریلوے رابطے کو دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے تاکہ خوراک اور طبی سامان بھیجنے میں مدد ملے۔

ایشین ڈویلپمنٹ بینک، سنٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے منصوبوں نے ازبکستان اور افغانستان کے درمیان موجودہ روابط کو بہتر بنایا ہے۔ انہوں نے نئے ٹرانزٹ روٹس بھی بنائے ہیں جو چین اور یورپ تک پھیلے ہوئے ہیں جب کہ مشرق میں بذریعہ افغانستان، نہ صرف ازبکستان بلکہ تمام وسطی ایشیائی ریاستیں پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے بحر ہند تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔

ازبکستان اور افغانستان کو تقسیم کرنے والے دریا آمو پر 1982 میں تعمیر ہونے والا دوستلک پل دونوں ممالک کو ریلوے لائن اور سڑک کے ذریعے جوڑتا ہے۔

ازبکستان، چین، قازقستان اور دیگر ریاستیں اسی پل کے ذریعے افغانستان سے تجارت کرتی ہیں جو افغانستان کے لیے ٹرانزٹ فیس کی صورت میں آمدنی کا اہم ذریعہ بھی ہے۔

ازبکستان نے فروری 2021 میں پاکستان کے ساتھ 573 کلومیٹر طویل ریلوے ایکسٹینشن کی تعمیر کے لیے معاہدہ کیا جو مزار شریف سے کابل اور پشاور تک جائے گا۔ یہ ازبکستان اور بقیہ وسطی ایشیا کو بحیرہ عرب کی بندرگاہوں سے جوڑ دے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جولائی میں تاشقند کا دورہ کیا تھا تاکہ وہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا افغانستان کے راستے منسلک کیا جا سکے۔ انہوں  نے 17 ستمبر کو دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد مجوزہ ریلوے لائن پر دوبارہ مذاکرات کیے۔

طالبان کے ساتھ پاکستان اور ازبکستان کے خوشگوار تعلقات کے پیش نظر مزار شریف پشاور ریلوے لائن پر جلد کام شروع ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔

اے ڈی بی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اپنی 73 فیصد بجلی درآمد کرتا ہے جس کا سب سے بڑا حصہ یعنی 57 فیصد بجلی ازبکستان سے حاصل کی جاتی ہے۔

اگست 2020 میں ازبکستان اور افغانستان نے بجلی کی فراہمی کے لیے 10 سالہ نئے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

ریڈیو فری یورپ کے مطابق اگر ازبکستان طالبان کے ساتھ تعلقات میں سختی لاتا ہے یا افغانستان کے ساتھ تجارت کو روکتا یا محدود کرتا ہے تو یہ پچھلے 20 سالوں کے دوران لگائے گئے وقت اور پیسے کا ضیاع ہوگا۔

جہاں ازبکستان افغانستان کو بجلی کی برآمدات معطل کرکے اپنا مالی نقصان اٹھائے گا وہیں دیگر ممالک بھی ازبکستان کے ذریعے افغانستان کے ساتھ تجارت سے محروم ہو جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا