پاکستان سے متعلق زلمے خلیل زاد کی ٹویٹس ذاتی عمل ہیں: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پاٹیل کا کہنا ہے کہ ’زلمے خلیل زاد ایک عام شہری ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا سرگرمیاں، ٹویٹس یا تبصرے ان کا ذاتی عمل ہیں۔ وہ امریکی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘

18 جنوری 2019 کی اس تصویر میں افغانستان کے لیے سابق امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے(تصویر: پی آئی ڈی/ اے ایف پی)

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ سابق سفارت کار اور افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی پاکستان سے متعلق ٹویٹس ان کا ذاتی عمل ہیں اور ان کا امریکی خارجہ پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔

واشنگٹن میں پیر کو امریکی محکمہ خارجہ میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے نائب ترجمان ویدانت پاٹیل کا کہنا تھا کہ ’ زلمے خلیل زاد ایک عام شہری ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا سرگرمیاں، ٹویٹس یا تبصرے ان کا ذاتی عمل ہیں۔ وہ امریکی خارجہ پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتے نہ ہی وہ اس انتظامیہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘

ان سے یہ سوال زلمے خلیل زاد کی ان ٹویٹس اور تبصروں کے بارے میں کیا گیا جو انہوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے حوالے سے کی ہیں۔

حالیہ دنوں میں زلمے خلیل زاد نے پاکستان کی سیاسی صورت حال خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کی خبروں اور ان کی عدالتوں میں پیشیوں کے حوالے سے متعدد بیانات دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

زلمے خلیل زاد نے 22 مارچ کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا: ’ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ، جس پر حکومتی اتحاد کا کنٹرول ہے، سپریم کورٹ سے عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دینے اور پی ٹی آئی کو اگلے چند دنوں میں منع کرنے کے لیے بھی کہہ سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا تھا: ’ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات پاکستان کے تین بحرانوں کو مزید گہرا کریں گے: سیاسی، اقتصادی اور سلامتی۔ پہلے ہی کچھ ممالک نے منصوبہ بندی سرمایہ کاری کو معطل کر دیا ہے۔‘

بقول زلمے خلیل زاد: ’آئی ایم ایف کی حمایت مشکوک ہے۔ اگر یہ اقدامات کیے گئے تو پاکستان کے لیے بین الاقوامی حمایت میں مزید کمی آئے گی۔ سیاسی پولارائزیشن اور تشدد بڑھنے کا امکان ہے۔ مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاسی رہنما تباہ کن چھوٹی سیاست سے اوپر اٹھیں گے جو قومی مفاد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اگر نہیں تو مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ ایسے کھیلوں میں استعمال ہونے سے منع کرے گی جو قوم کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ میری پاکستان کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔‘

پاکستانی دفتر خارجہ نے سابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’بین الاقوامی لابیئسٹ پاکستان میں خانہ جنگی کرانے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں اور یہ (زلمے کی) ٹویٹ اسی منصوبے کی کڑی ہے۔‘

دفتر خارجہ نے مزید کہا تھا کہ ’پاکستان کو آج درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کسی سے لیکچرز یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک لچکدار قوم کے طور پر ہم موجودہ مشکل صورت حال سے مضبوطی سے نکلیں گے۔‘

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی زلمے خلیل زاد کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’امریکی سازش اور امپورٹڈ رجیم کی اصلیت سامنے آ گئی ہے، فارن فنڈنگ کے مجرم کے ہینڈلرز سامنے آتے جا رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا