خواتین عملے پر پابندی: اقوام متحدہ آج طالبان سے مذاکرات کرے گا

اقوام متحدہ کے مطابق وہ اس پابندی کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے اور مزید وضاحت کے لیے بدھ کو کابل میں افغان وزارت خارجہ کے حکام سے ملاقات کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریش سٹیفن دوجرک (بائیں) چار فروری 2020 کو نیویارک شہر میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ایک پریس بریفنگ کے دوران گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی/فائل)

افغانستان میں اقوام متحدہ کا مشن بدھ کو کابل میں طالبان حکام کے ساتھ مذاکرات کرے گا تاکہ نئی حکومتی پابندی کے بارے میں ’وضاحت حاصل کی جا سکے‘ جس کے مطابق خواتین عملے کو ملک بھر میں عالمی ادارے کے لیے کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ میں کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی کے نفاذ کے حکم کے بعد عالمی ادارے نے افغانستان میں موجود اپنے تقریباً ساڑھے تین ہزار افراد کے عملے کو اگلے دو دنوں تک کام پر نہ آنے کی ہدایت کی ہے۔

قوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجرک نے نیویارک میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے دفتر کو ’طالبان حکام کی جانب سے ایک حکم نامہ موصول ہوا ہے جس میں عالمی ادارے کے عملے میں شامل خواتین کے کام کرنے پر پابندی کے بارے میں بات کی گئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اس حکم نامے کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے اور مزید وضاحت کے لیے بدھ کو کابل میں افغان وزارت خارجہ کے حکام سے ملاقات کر رہا ہے۔

ملک میں تقریباً 400 افغان خواتین اقوام متحدہ کے لیے کام کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے دو ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ طالبان کے حکم نامے کے نفاذ کے حوالے سے خدشات کے باعث تنظیم نے اپنے تمام عملے بشول مرد اہلکاروں کو 48 گھنٹے تک کام پر نہ آنے کی ہدایت دی ہے۔

جمعے اور ہفتے کو عام طور پر افغانستان میں چھٹی کے دن ہوتے ہیں جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کا عملہ اب اتوار تک واپس کام پر نہیں آئے گا۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) نے ایک روز قبل مشرقی صوبے ننگرہار میں خواتین عملے کو کام پر جانے سے روکنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

سٹیفن نے مزید بتایا کہ ’ننگرہار کے صوبائی دارالحکومت جلال آباد میں دونوں حکام کے درمیان بات چیت ہوئی ہے تاہم ہمیں مختلف ذرائع سے بتایا گیا کہ اس پابندی کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ زندگی بچانے والی امداد پہنچانے کے لیے اقوام متحدہ کے لیے عملے میں خواتین ارکان کی شمولیت ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

طالبان انتظامیہ اور افغان وزارت اطلاعات نے فوری طور پر اس بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

ادھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے ننگرہار میں خواتین پر پابندی کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’اگر اس اقدام کو واپس نہیں کیا گیا تو یہ لامحالہ ان لوگوں کو زندگی بچانے والی امداد پہنچانے کی ہماری صلاحیت کو نقصان پہنچائے گا جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے۔‘

طالبان انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کا احترام کرتی ہے۔

کابل میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے طالبان نے خواتین کی عوامی زندگی تک رسائی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس میں خواتین کو یونیورسٹی جانے سے روکنا اور لڑکیوں کے زیادہ تر ہائی سکولوں کو بند کرنا شامل ہے۔

اس سے قبل دسمبر میں بھی طالبان حکام نے انسانی امدادی تنظیموں کی زیادہ تر خواتین ملازمین کو کام کرنے سے روک دیا تھا جس کے بعد ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس پانبدی کے بعد ضرورت مند خواتین تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے اور اس سے وہ فنڈز روکنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دسمبر میں عائد کی  گئیں یہ پابندیاں ابتدائی طور پر اقوام متحدہ اور کچھ دیگر بین الاقوامی تنظیموں پر لاگو نہیں ہوتی تھیں۔ رواں سال جنوری میں اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل آمنہ محمد نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ طالبان حکام اگلی بار بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی لگا سکتے ہیں۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا کابل میں غیر ملکی سفارت خانوں کو خواتین عملے کے بارے میں ایسی ہی ہدایات موصول ہوئی ہیں یا نہیں۔

افغان خواتین پر پابندی افغانستان میں اقوام متحدہ کے آپریشنز کو جاری رکھنے کے لیے بڑے چیلنجز کا باعث بن سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے کی اہلیت پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔

امدادی حکام نے اس خطرے کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ڈونر ممالک خواتین پر پابندیوں کی وجہ سے فنڈنگ کم کر دیں گے۔

اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے 2023 میں افغانستان میں امداد کی فراہمی کے لیے 4.6 ارب ڈالر کی درخواست کر رکھی ہے۔

دوسری جانب طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ننگرہار میں اس معاملے پر معلومات حاصل کر رہے ہیں۔

ایک غیر ملکی امدادی کارکن نے کہا کہ اقوام متحدہ کی خواتین پر پابندی کا بہت زیادہ اثر پڑے گا۔

انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’خواتین ملازمین متاثرہ خواتین کی شناخت کرتی ہیں، اس طرح یہ تمام ایجنسیوں میں کام کیا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین