پاکستان انڈیا مخالف انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کرے: بائیڈن-مودی اعلامیہ

ایک مشترکہ بیان میں دونوں رہنماؤں نے پاکستان سے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے انتہاپسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کا تقاضہ کیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نئی دہلی کو ہدف بنانے والے انتہاپسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں رہنماؤں نے پاکستان سے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے انتہاپسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کا تقاضہ دہرایا کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انہوں (صدر جوبائیڈن اور نریندرمودی) نے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی، دہشت گرد کے لیے تنظیموں کے استعمال کی شدید مذمت کی اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کرے کہ اس کے زیر انتظام کوئی بھی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔‘

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے انڈیا اور امریکہ کی مشترکہ اعلامیے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا پاکستان دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ملک رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بین الاقوامی پارٹنرز کی سنجیدگی سے شمولیت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہو سکے گی۔

جمعے کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ مذکورہ اعلامیہ سے متعلق تفصیلی ردعمل پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کیا جائے گا۔

’امریکہ اور انڈیا کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون سے پاکستان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اس وقت اپنے اندرونی معاملات پر توجہ دینا ہے۔ بین الاقوامی ٹارگٹس کو بعد میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کی دہشت گردی کی طرٖف سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ ’دنیا کے بڑے ممالک کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ دہشت کے خلاف جنگ لڑنے والے ممالک کا ساتھ دینا ہو گا، تبھی کامیابی ممکن ہو سکے گی۔‘ 

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں بشمول القاعدہ، داعش، لشکر طیبہ (ایل ای ٹی)، جیش محمد (جے ای ایم) اور حزب المجاہدین کے خلاف ٹھوس کارروائی کے مطالبے کا اعادہ کیا۔‘

انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ 2008 میں ممبئی حملوں سمیت مختلف حملوں میں ملوث افراد کو سزا دے۔

مودی کی قیادت میں انڈیا نے پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کر رکھا ہے اور انہوں نے 2019 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ایک دھماکے کے بعد پاکستانی علاقوں پر جوابی حملے کا اعلان کیا تھا۔

انڈین حکام اپنے زیرانتظام کشمیر میں ہونے والے ان حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہیں تاہم پاکستان انڈیا کے ان الزامات کی تردید کرتا ہے جن کے مطابق ان انتہاپسند گروہوں کو پاکستان کی مدد حاصل ہے۔ جواب میں اسلام آباد نئی دہلی پر پاکستان میں دہشت گردی کی مدد کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ 

عسکریت پسند لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید کو 2008 کے ممبئی حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ 26 نومبر کی شام سے شروع ہونے والے حملوں کے تین دنوں میں 160 سے زیادہ افراد جان سے گئے تھے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انہوں نے (بائیڈن اور مودی) 26/11 کے ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔‘

2016 میں پٹھان کوٹ کے ایئربیس پر ہونے والے اس حملے میں انڈیا کے سات فوجی مارے گئے تھے۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ملکوں انڈیا اور پاکستان کے تعلقات برسوں سے کشیدہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1947 میں برصغیر میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد سے، انڈیا اور پاکستان تین جنگیں لڑ چکے ہیں، جن میں سے دو مسلم اکثریتی ہمالیائی خطے کشمیر پر لڑی گئیں۔ دونوں ملک پورے کشمیر کے دعویدار ہیں لیکن اس پر جزوی طور پر حکومت کرتے ہیں۔

امریکہ تاریخی طور پر پاکستان کے قریب رہا ہے لیکن اب امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے انڈیا کے ساتھ پرجوش تعلقات کے برعکس پاکستان کو فاصلے پر رکھا ہوا ہے۔

انڈیا  اور امریکہ نے ’میانمار کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا‘ جہاں فوج نے 2021 میں سویلین حکومت کو معزول کر دیا تھا۔

دونوں ممالک نے ’یک طرفہ طور پر حراست میں لیے گئے تمام افراد کی رہائی، تعمیری بات چیت کے آغاز اور میانمار کی جامع وفاقی جمہوری نظام کی طرف منتقلی‘ پر زور دیا۔

امریکہ نے میانمار کی حکومت پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں لیکن نئی دہلی نے میانمار کے ساتھ نسبتاً خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھا ہوا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ بیان میں ملک کا حوالہ میانمار کے طور پر دیا گیا ہے نہ کہ برما کے سابقہ نام سے جس کا امریکہ استعمال کرتا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا