دعاؤں کے عوض انڈین شہریوں کو آبائی گھر دکھانے والے پاکستانی

راولپنڈی کے رہائشی سجاد حیدر 1947 میں ہجرت کر کے انڈیا جانے والے افراد کو بلامعاوضہ ان کا آبائی گھر اور محلہ دکھاتے ہیں۔

گذشتہ برس 90 برس کی انڈین خاتون رینا چھبر ورما کی آبائی علاقے میں آمد پر پاکستانیوں کی جانب سے ان کے والہانہ استقبال نے دنیا بھر کی خبروں میں نمایاں جگہ بنائی۔

رینا چھبر ورما کو پاکستان کا ویزا سپانسر کرنے اور ان کا گھر دکھانے والے کوئی اور نہیں سجاد حیدر تھے۔ رینا ماں کی پاکستان آنے کی خواہش آج کی نہیں تھی وہ برسوں سے اس بات کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ ان کی اس خواہش کو سب سے پہلے انڈپینڈنٹ اردو نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔

راولپنڈی کےسجاد حیدر سے سوشل میڈیا پر رابطے اور گھر کی تصاویر دیکھنے کے بعد ان کا آتش شوق بھڑک اٹھا۔

سنہ 2019 میں جب پہلی بار سجاد صاحب کا رینا چھبر صاحبہ سے رابطہ ہوا تو اگلے ہی دن صرف آدھے گھنٹے میں سجاد صاحب نے ان کا گھر ڈھونڈ کرتصاویر بھیج دیں۔

بس پھر کیا تھا رینا ماں بے چین ہوگئیں۔ پاکستان آنے کی تیاریاں شروع کیں تو کرونا کی وبا نے دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔

 یوں یہ معاملہ دو ڈھائی سال لٹکا رہا۔ لیکن بلاآخرسجاد صاحب کے سپانسر سرٹیفیکٹ اور کوششوں کی ان کا پنڈی آنے کا سپنا پورا ہوہی گیا۔

اپنے آبائی علاقے سے بچھڑے ہوئے لوگوں کو ان کے گھر دکھانے کا یہ سلسلہ چھے سال پہلے شروع ہوا۔ جب سجاد حیدر کی سوشل میڈیا پر چند انڈین شہریوں سے بات چیت شروع ہوئی انہوں نے سب سے پہلے ہندوستان میں مقیم ایک سردار صاحب کو ان کا اسکول اور محلہ دکھایا۔

سردار جی سرگودھا سے ہندوستان ہجرت کر گئے تھے۔ سجاد حیدر کا ان سے فیس بک پر رابطہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل وہ سرگودھا کے سیکٹر 14 کے ایک سکول میں پڑھتے تھے اگر اس کی تصاویر مل جائیں تو مہربانی ہوگی۔

 اتفاق کی بات اس علاقے کے قریب سجاد کے ایک دوست رہتے تھے جن کے توسط انہوں نے نہ صرف سکول بلکہ علاقے کی بھی تصاویرمنگوالیں۔ باباجی تو دیکھتے ہی نہال ہوگئے۔ جھولی بھر بھر کے دعائیں ملیں تو سجاد بھائی کا شوق بھی پروان چڑھا۔

بس یہ پہلا واقعہ تھا جس کے بعد گاڑی چل پڑی۔ انہوں نے نہ صرف پنڈی بلکہ پنجاب کے مختلف حصوں سے انڈیا جانے والے لوگوں کو ان کے آبائی گھر اور محلے دکھائے۔

اب تک وہ تقریباً 15 انڈین شہریوں کو ان کے گھر دکھا کر دعائیں سمیٹ چکے ہیں۔ رینا چھبر ورما آنٹی کےپاکستان دورے کے بعد بڑی تعداد میں انڈین شہریوں نے ان سے رابطہ کیا۔

ایک ایسی ہی کہانی سردار موہندر سنگھ جی کی ہے جن کی عمر اس وقت 90 برس ہے۔ وہ تقسیم کے وقت راولپنڈی کے علاقے محلہ امر پورہ کے قریب رہائش پذیر تھے۔

سنہ 1947میں ہندوستان ہجرت تو کر گئے لیکن اپنے ملک اور محلے کی یادیں آج بھی ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے ملک سے باہر رہتے ہیں اور موہندر سنگھ جی جموں کے ایک اولڈ ہوم میں زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں۔

 بابا جی اس پیار اور محبت سے پنڈی کی یادوں میں کھوئے رہتے ہیں کہ اولڈ ہوم میں موجود ایک خاتون نے سجاد حیدر سے رابطہ کیا اور موہندر سنگھ کا گھر ڈھونڈنے کی درخواست کی۔

 

سجاد بھائی کی سوشل میڈیا فرینڈ نے انہیں بابا جی کی ویڈیو بناکر بھیجی تاکہ گھر ڈھونڈنا آسان ہو۔ چند ہی دنوں میں سجاد حیدر نے بابا جی کاگھر ڈھونڈ نکالا۔

وہ گھر اب بھی اسی حالت میں ہے جیسا سردار جی نے تقسیم کے وقت چھوڑا تھا۔ لیکن شدید خواہش کے باوجودسردار صاحب کی صحت اور معاشی حالات ایسے نہیں کہ اپنا گھر دیکھنے پاکستان آ سکیں۔ لیکن اس نیکی کے بدلے سجاد صاحب کا دامن سردار صاحب کی دعاؤں سے خوب بھر گیا۔

اس کے علاوہ وہ اب تک ہر مجیت ستیال صاحب، تریپت ستیال اروڑہ، جودھ سنگھ بھٹ اور پال سنگھ سمیت 15 انڈین شہریوں کو ان کا آبائی گھر دکھا چکے ہیں۔

ان میں صرف وہ عمر رسیدہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ہجرت کرگئے بلکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادا سے ان کے آبائی وطن کے قصے سنے اور یوں وہ بھی ایک ان دیکھی محبت میں مبتلا ہوگئے۔ اس ان دیکھی محبت کو پورا کیا سجاد حیدر نے۔

ایسے ہی دو افراد جودھ سنگھ اور پال سنگھ ہیں۔ جودھ سنگھ آسٹریلیااور پال سنگھ امریکا میں مقیم ہیں۔ جودھ کے دادا جی راولپنڈی کےشاہ چن چراغ سے ہجرت کرکے گئے تھے۔

انہوں نے اپنے دادا سے یہ تو سنا تھا کہ ان کا گھر بارہ دری کے گوردوارے کے سامنے تھا لیکن گھر کی پہچان نہیں تھی۔ سجاد صاحب نے وہ گھر ڈھونڈ لیا لیکن اب وہ ٹوٹ کے نیا بن چکا تھا۔

سجاد حیدر یہ کام پورے خلوص سے اور بلامعاوضہ کرتے ہیں۔ اس مشینی زندگی میں جب کسی کے پاس فرصت نہیں سجاد صاحب آخر اتنا وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟

سجاد حیدر بتاتے ہیں کہ ’ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں اولڈ پنڈی کے قریب ہی رہتا ہوں، بچپن سے ہی پرانی عمارتوں کو شوق سے دیکھتا ان پر لگی ناموں کی تختیاں پڑھتا جس پر اکثر ہندو اور سکھوں کے نام کندہ ہوتے تو سوچتا کہ یہ بڑے بڑے حویلی جیسے گھر کسی نے کتنے چاؤ سے بنائے ہوں گے۔ یہ لوگ آج کہاں ہوں گے؟ ہوں گے بھی یا نہیں؟

’ان تختیوں سے پتا چلتا ہے کہ اس علاقے میں ہندو مسلم، اور سکھ آس پاس ہی رہتے تھے۔ وہ کتنا اچھا دور ہو گا۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میرے دادا نانا ہوشیار پور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور باوجود شدید خواہش کے وہ کبھی واپس اپنے آبائی علاقے میں نہیں جا سکے۔

ان کے مطابق ’آج مجھے بہت افسوس ہے کہ میں کم عمر ہونے کی وجہ سے اپنے والد اور نانا دادا کی شدید خواہش پوری نہیں کر سکا۔ بچپن سے یہ سب دیکھتے سوچتے میں نے اسے مشن بنالیا کہ اگر کوئی سرحد پار اپنا یا اپنے اجداد کاآبائی گھر دیکھنا چاہتا ہے تو میں انہیں ضرور ان کے گھر ان کا علاقہ، محلہ دکھاتا ہوں میرے نزدیک تو یہ بھی ایک نیکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’لیکن یہاں ایک مسئلہ ہوتا ہے عمررسیدہ لوگوں کی یاداشت اتنا ساتھ نہیں دیتی ۔اگر انہیں علاقے کا نام یاد بھی ہو تو اب اس محلے کا نام تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ نئی تعمیرات کی وجہ سے اس علاقے کا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو مایوسی ہوتی ہے لیکن میں اپنی سی پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان کی تسلی ہوسکے۔‘

سجاد حیدر کی شدید خواہش ہے کہ وہ بھی اپنے آبا و اجداد کا گاؤں ہوشیار پور ایک بار ضرور دیکھ کر آئیں۔ لیکن دونوں ملکوں کے تلخ تعلقات اور ویزا مشکلات کے باعث فی الحال یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔

پاکستان انڈیا کشیدہ تعلقات کے باوجود سجاد حیدر اپنے بے لوث مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’کشیدگی ہے ضرور لیکن سرکاری سطح پر ،عام لوگ تو ایک دوسرے سے ملنا اور محبت کرنا چاہتے ہیں۔

’میری طرح بہت سے لوگ پاکستان انڈیا دوستی کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں لیکن کشیدگی سے ڈرتے ہیں۔ میں صحافی ہوں اس لیے کام کا طریقہ کار جانتا ہوں، پھر میں نے اس خدمت کے لیےکبھی کسی سے کوئی رقم نہیں لی۔ کیونکہ پیسوں کی خاطر خدمت کرنا یہ عمل میری نہیں بلکہ میرے وطن کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے۔ جو انڈینز مجھے اپنی تفصیلات شیئر کرتا ہے وہ مجھے پیسوں کی آفر کرتا ہے لیکن صاف انکار کردیتا ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں ’76 سال گزرنے کے بعد دونوں ملکوں کی حکومتوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہم لاکھ کوشش کریں اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ اس لیےنفرتوں کا کاروبار کرنے کے بجائے محبتوں کا پرچار کریں، امن کا پیغام عام کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان