ملک بھر کے دیگر شہروں کی طرح بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بھی چینی کی قیمت میں مسلسل اضافے نے شہریوں کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے باعث بجلی اور پیٹرول کے بعد اب چینی بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔
تاہم کوئٹہ شہر میں کاروبار کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ چینی بحران کی ایک بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی کے ساتھ ساتھ سمگلنگ بھی ہے۔
حکومت بلوچستان کا موقف
بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے چینی کی سمگلنگ اور قلت کے حوالےسے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چینی کی سمگلنگ کے حوالے سے ہمیں اطلاعات ملی ہیں، جس کے خلاف ہم نے وسیع پیمانے پرآپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: کہ ’وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی اس حوالے سے سخت احکامات جاری کیے ہیں۔ جبکہ صوبے میں اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں کی جا رہی ہے۔‘
جان اچکزئی سے جب ہم نے یہ سوال کیا کہ کوئٹہ میں چینی کی قلت اور اس کی قیمت میں بڑے اضافے کی اصل وجہ سمگلنگ ہے؟
اس سوال پر انہوں نے کہا ’ایک وجہ ہوسکتی ہے، تاہم بنیادی وجہ یہ نہیں ہے، ذخیرہ اندوزی دوسری وجہ ہو سکتی ہے۔‘
شہری اور تاجر کیا کہتے ہیں؟
ملک بھر میں اس وقت بجلی کے زیادہ بل اور پیٹرول کی قیمت میں اضافہ زیر بحث تھا جبکہ کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں چینی کی قیمت میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور چینی نے 200 کا ہندسہ بھی پار کر لیا ہے۔
کوئٹہ کے رہائشی بیبرگ بلوچ کو اس وقت حیرت کا سامنا ہوا جب وہ دکاندار کے پاس چینی کی خریداری کے لیے گئے۔ انہیں بتایا گیا کہ ’چینی موجود نہیں اور اس کی قیمت فی کلو 220 ہوگئی ہے۔‘
انہوں نے جب دکاندار سے کہا کہ ’آپ نے چند روز قبل ہی 175 روپے فی کلو کے حساب سے چینی دی تھی ایک دم قیمت کیوں بڑھ گئی؟‘
دکاندار نے بیبرگ کو بتایا کہ ’مارکیٹ میں چینی کی قلت ہے اور ہمیں مال سپلائی نہیں ہوا۔ نرخ میں مزید اضافے کا بھی امکان ہے، اس لیے جو چینی مل رہی ہے وہ مہنگی ہے اور نرخ میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
یہ صرف کوئٹہ کے شہریوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان بھر میں اس وقت چینی کی قلت ہے اور اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے شہری تشویش میں مبتلا ہیں۔
تاہم دوسرے شہروں کے مقابلے میں کوئٹہ میں نرخ میں اضافے کا رجحان باقیوں سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
بیبرگ نے بتایا کہ ’ہم پہلے ہی سے بجلی کے بلوں اور پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے پریشان تھے اب چینی کے بحران نے سراٹھا لیا ہے۔‘
کوئٹہ کے سٹیلائٹ ٹاؤن کے علاقے میں چینی کا کاروبار کرنے والے ایک ڈیلر بابولال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کوئٹہ میں چینی کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ جس کی ایک وجہ حکومت کی طرف سے پابندی ہے اور پرمٹ پر بھی چینی آنے کی اجازت نہیں مل رہی ہے، اس لیےشہر میں چینی کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔‘
چینی کے ایک اور تاجر امین اللہ کہتے ہیں کہ ’ایک تو حکومت چینی لانے کی اجازت نہیں دی رہی جس کی وجہ سے کوئٹہ میں چینی کی قیمت روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ اب ایک 50 کلو والی بوری کی قیمت دس ہزار600 تک جاپ پہنچی ہے جبکہ یہی چینی سبی میں نو ہزار فی بوری میں مل رہی ہے۔‘
امین اللہ نے چینی بحران کی ایک اہم وجہ بڑے تاجروں کی جانب سے ذخیرہ اندوزی کوبھی قرار دیا ہے۔
وزیراعلی بلوچستان کا اظہار تشویش
ادھر وزیراعلیٰ بلوچستان میرعلی مردان خان ڈومکی کے یکم ستمبر کوجاری ایک بیان میں بھی صوبے سے چینی کی سمگلنگ پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے چینی کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو مربوط لائحہ عمل مرتب کرنے کی ہدایت دی۔
وزیراعلیٰ نے قانون نافذ کرنے والے ادارں اور ضلعی انتظامیہ کو چینی کی سمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے اور محکمہ داخلہ میں انسداد چینی سمگلنگ سیل کے قیام کی ہدایت بھی کی ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’چینی کی سمگلنگ کا نتیجہ مہنگائی کی صورت میں عام آدمی کو بھگتنا پڑتاہے، عوام کو درپیش مسائل کا بخوبی اندازہ ہے، حل کو یقینی بنائیں گے۔‘
چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائیاں
دوسری جانب بلوچستان میں محکمہ کسٹم کی جانب سے چینی کی سمگلنگ کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
کسٹم کے بیان میں بتایا گیا کہ چند روز قبل ایک ہی دن میں دو کارروائیوں کے دوران 20 ٹرکوں پر چینی کی سمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمہ کسٹم کے ترجمان ڈاکٹر عطا بڑیچ کے مطابق ’پکڑی جانے والے چینی اور قبضے میں لی جانے والی گاڑیوں کی مارکیٹ قیمت 70 کروڑ روپے کے قریب بنتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی سرحد پر کسٹم فیلڈ انفورسمنٹ یونٹ نے ڈیرہ اسماعیل خان سے آنے والے ایک بہت بڑے قافلے جو 15 ٹرکوں پر مشتمل تھا، کو روک کر ان سے 8206 پارسلز چینی جو بغیر پرمٹ اندرون صوبہ بلوچستان اوربعد ازاں سرحدی علاقوں میں بھجوائی جانے تھی۔ کو پکڑ لیا۔‘
محکمہ کے اعداد وشمار کے مطابق کوئٹہ کسٹمز نے ماہ جولائی اور اگست کے دوران انتہائی قلیل افرادی قوت اورنامساعد حالات میں 1637.22 میٹرک ٹن چینی قبضے میں لی ہے۔
جس کی قیمت بمعہ استعمال ہونے والی گاڑیوں کے ساتھ ایک ارب روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔
اسلام آباد میں بھی چینی کی قیمتوں میں اضافہ
کوئٹہ کی طرح اسلام آباد میں بھی چینی کی قیمتوں میں اضافے پر شہری پریشان ہیں اور چینی کا متبادل تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک دکاندار شاہ زیب کا کہنا ہے کہ ’بعض اوقات ایک دن کے دوران بھی چینی کی بوری کی قیمت میں 500 روپے تک کا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ پہلے جو ایک کلو خریدتے تھے اب آدھا کلو خرید رہے ہیں اور جو پانچ کلو خریدتے تھے اب دو کلو خرید رہے ہیں۔‘
محمد قاسم نامی ایک اور دکاندار کا کہنا ہے کہ ’ریٹ بڑھنے کے بعد کھلی چینی 180 روپے کلو جب کے پیکنگ والی چینی کا ریٹ دو سو سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔‘
ان کے مطابق ’چینی کی قیمت بڑھنے کے ساتھ شکر اور گڑ کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔‘
ایک شہری مسز راشد کا کہنا ہے کہ ’بڑھتی مہنگائی کے باوجود چینی کا استعمال ختم تو نہیں ہو سکتا لیکن اس کا متبادل بھی مہنگا ہے۔‘
ایک اور شہری اے ڈی خان کا کہنا ہے کہ ’چینی کی قیمت میں اضافے کے باوجود اس کا متبادل بھی نہیں ہے اور جو اس کا متبادل تھا یعنی گڑ اور شکر اس کی قیمت چینی سے بھی زیادہ ہے۔‘
’اس کا کوئی ایسا متبادل نہیں ہے، صرف ایک نمک ہی رہ گیا کہ پاکستانی عوام چائے میں چینی کی جگہ نمک ڈالنا شروع کر دے۔‘