پاکستان سے ’سمگل‘ نزلے کی دوا کا افغانستان میں آئس نشے میں استعمال، ڈریپ کی تردید

پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سربراہ عاصم رؤف کا کہنا ہے کہ افغانستان میں آئس نشے کی تیاری میں پاکستانی ادویات کے سمگل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

دو مارچ 2023، افغانستان کے شہر جلال آباد طالبان کا ایک رکن ایک کارروائی میں ضبط کیے جانے والے اسلحے اور منشیات کے ساتھ کھڑا ہے(اے ایف پی/شفیع اللہ کاکڑ)

پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) نے جمعے کو افغانستان میں میتھافیٹامین (آئس) کی تیاری میں پاکستان سے نزلے زکام کے علاج کی گولیاں غیر قانونی طور پر درآمد کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات کنڑول (یو این او ڈی ایس) کی 10 ستمبر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان دنیا بھر میں میتھافیٹامین (آئس) نامی منشیات کا مرکز بن چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس منشیات کی تیاری میں پاکستان سے نزلے زکام کے علاج کی گولیاں غیر قانونی طور پر درآمد کی جاتی ہیں۔

اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے ڈراپ کے سربراہ عاصم رؤف سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ایفیڈرین اور سیڈو ایفیڈرین کے حوالےسے سخت قوانین موجود ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک سمگلنگ کی بات ہے تو مجھے(افغانستان سمگلنگ) کے امکان نہیں لگتے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے جب پوچھا کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات کنٹرول کے رپورٹ میں یہ واضح لکھا گیا ہے کہ پاکستان سے ایفیڈرین کی لائسنس یافتہ گولیاں سمگل کی جاتی ہیں، تو انہوں نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

اقوا متحدہ کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ میتھافیٹامین (میتھ) یا عام زبان میں آئس کہلایا جانے والا مواد ایک ایسا نشہ ہے جو مختلف طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے اور افغانستان کے علاوہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2021 میں مجموعی طور پر افغانستان میں 29 ٹن آئس پکڑی گئی۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اتنی مقدار میں آئس بنانے کے لیے پانچ ہزار ٹن تک خشک ایفیڈرین کا پودا چاہیے ہوتا ہے جبکہ اگر اسے گولیوں سے بنانا پڑے تو اس کے لیے 746 ٹن تک گولیوں کی ضرورت ہو گی۔

رپورٹ میں ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ ’2020 میں افغانستان میں 13 سے 18 سال کی عمر کے درمیان کے بچوں میں آئس کا استعمال ہیروئن سے بڑھ چکا ہے اور ہر 100 میں دو بچے آئس جبکہ ایک بچہ ہیروئن کا استعمال کرتا ہے۔‘

اسی رپورٹ میں اعدادوشمار کا اندازہ افغانستان سمیت دیگر ممالک میں آئس کی پکڑی جانے والی کھیپ سے لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں دیے گئے اعدادو شمار کے مطابق 2017 میں پکڑی گئی 100 کلو آئس کے مقابلے میں 2021 میں پکڑی جانے والی کھیپ تقریباً 29 ٹن تک پہنچ گئی اور اس میں دیگر ممالک سمیت سب سے زیادہ کھیپ افغانستان سے سمگل کرتے ہوئے پکڑی گئی۔

رپورٹ میں ایرانی حکام سے منسوب بیان میں لکھا گیا کہ ’ایران میں سمگل شدہ آئس میں سے90 فیصد افغانستان سے سمگل کی گئی تھیں جبکہ پاکستان میں بھی یہی ٹرینڈ دیکھا گیا ہے کہ سمگل شدہ آئس زیادہ تر افغانستان سے ہی سمگل کی جاتی ہے۔‘

اسی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’افغانستان میں آئس دو طریقوں سے بنایا جاتا ہے جس میں ایک خاص قسم کا پودا استعمال ہوتا ہے جس کو ’ایفیڈیرل پلانٹ‘ کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا طریقہ اس کو مختلف ادویات اور کیمیکل سے بنایا جاتا ہے جس میں نزلے اور زکام کی گولیاں بھی شامل ہیں۔‘

پودے سے آئس یا میتھ بنانا

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ آئس یا میتھافیٹامین کو ’ایفیڈرل‘ نامی پودے سے تیار کیا جاتا ہے اور اس پودے سے آئس بنانے میں کوئی زیادہ مہارت کی ضرورت نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس پودے پر بین الاقوامی طور پر کوئی کنٹرول یا پابندی نہیں ہے اور وسطی ایشیا کے ممالک میں اس کو ’ما ہوانگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وسطی ایشیا سمیت چینی طب میں بھی یہ پودا مختلف بیماریاں جیسے کے سانس کی بیماری، الرجی، نزلہ و زکام اور کچھ ممالک میں اس پودے سے بنی ادویات وزن کم کرنے کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

جبکہ وسطی ایشیا کے کچھ ممالک میں یہ پودا جانوروں کے چارے اور کھانے پکانے کے لیے بطور ایندھن بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اسی رپورٹ کے مطابق اس پودے میں ایفیڈرین یا سیڈو ایفیڈرین نامی مواد پایا جاتا ہے جو آئس کے بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسی پودے کی بعض اقسام میں یہ مواد موجود نہیں ہوتا۔ 

 رپورٹ کے مطابق ایفیڈرل پودا جب سطح سمندر سے پانچ ہزار میٹر کی بلندی پر پہاڑی علاقوں میں اگتا ہے تو اس میں ایفیڈرین کی مقدار زیاہ ہوتی ہے۔

 جبکہ افغانستان میں یہ مختلف پہاڑی علاقوں میں 2500 سے تین ہزار میٹر کی بلندی پر اگایا جاتا ہے اور اس کی کٹائی جولائی اور اکتوبر کے درمیان کی جاتی ہے۔

 

 اس پودے کو پاکستان میں بھی درامد کیا جاتا ہے جو ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ مقدار میں آئس بنانے کے لیے اسی پودے کے ساتھ دیگر کیمیکل ملائے جاتے ہیں اور اس سے آئس بنائی جاتی ہے۔

مقدار کی بات کی جائے تو رپورٹ کے مطابق تقریباً تین ٹن 100 فیصد خالص آئس بنانے کے لیے 531 ٹن کی پودے ضرورت ہوتی ہے جبکہ 478 ٹن پودے سے 90  فیصد خالص آئس، 399 ٹن پودے سے 75 فیصد خالص اور 266 ٹن پودے سے 50 فیصد خالص آئس بنائی جاتی ہیں۔

افیون پر قابو پایا ہے، دیگر نشوں پر بھی قابو پائیں گے: افغان ترجمان

افغانستان کی عبوری حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملک میں آئس کے بڑھتے ہوئے استعمال اور فراہمی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس طرح ان کی حکومت نے افیون کی کاشت پر قابو پایا ہے، اسی طرح دیگر نشوں پر بھی قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ’ہم دیگر منشیات کی روک تھام کے لیے بھی کوششیں تیز کریں گے اور اس کی سمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات کریں گے۔‘

ذبیح اللہ نے بتایا کہ ’جس پودے کی آپ نے بات کی تو یہ ہماری حکومت سے پہلے سمگل کی جاتی تھی لیکن اب ہم نے سمگلنگ کے راستے بند کیے ہیں اور اس پودے کی استعمال پر بھی پابندی عائد کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پودے کی افغانستان میں کاشت اور اس کٹائی کی اور خرید و فروخت ممنوع ہے۔

نزلے زکام کی دوا سے آئس بنانے کا انکشاف

اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں نزلے اور زکام کے لیے استعمال ہونے والی گولیاں بھی آئس بنانے میں استعمال کی جاتی ہیں اور اس کا اندازہ رپورٹ میں اس بات سے لگایا گیا ہے کہ افغانستان میں یہ دوا قانونی ضرورت سے زیادہ پیدا کی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں افغانستان سے جمع کیے گئے اعدادو شمار میں لکھا ہے کہ ’ملک میں 150 کلو گرام ایفیڈرین اور 2800 کلو گرام کی سیڈوایفیڈرین کی ڈیمانڈ ہے جبکہ یہ ڈیمانڈ 2014 میں 50 کلو ایفیڈرین اور 300 کلو سیڈوایفیڈرین تھی۔‘

ان اعدادوشمار سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ افغانستان میں اتنی مقدار میں اس دوا کی بنانے کے لیے فارماسیوٹیکل سہولیات موجود نہیں ہے تو قوی امکان ہے کہ نزلے زکام کی دوا کو آئس بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغانسان میں 2020 اور 2021 میں بنائی گئی آئس میں 46 فیصد گولیوں میں وہ مواد پایا گیا تھا جو افغانستان اور پاکستان میں نزلے اور زکام کے لیے بطور دوا استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دوا افغانستان اور پاکستان میں گولیوں اور شربت کی شکل میں فروخت کی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کچھ تصاویری شواہد سے بھی سامنے آیا ہے کہ آئس بنانے میں نزلے زکام کا شربت بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ کچرے کے بعض مقامات پر بڑی تعداد میں نزلے زکام کے شربت کی بوتلیں پائیں گئی ہیں۔

 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والے گولیوں میں ایفیڈرین (جو آئس بنانے میں استعمال ہوتا ہے) کی مقدار فی خوراک میں 15 سے 120 گرام ہے جس میں نو فیصد سے لے کر 60 فیصد تک تناسب سیڈوایفیڈرین کی ہے اور یہ بھی آئس بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

پودے سے بنی آئس کی قیمت

گولیوں کی مقدار اور آئس بنانے کی بات کی جائے تو تقریباً تین ٹن نزلے زکام کی گولیوں سے 75 ٹن 100 فیصد خالص آئس، 68 ٹن سے 90 فیصد، 57 ٹن سے 75 فیصد جبکہ 38 ٹن سے 50 فیصد خالص آئس تیار کی جاتی ہے۔

 خالص کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جتنا زیادہ ایفیڈرین استعمال ہو گا تو آئس اتنی ہی خالص کہلائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق اس پودے سے بنائی گئی آئس نزلے زکام کی گولیوں سے بنائی جانے والے آئس سے سستی پڑتی ہے کیونکہ اس پر خرچہ کم آتا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں افغانسان کے مقابلے میں یہ گولیاں سستی پڑتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 100 گولیوں کی قیمت تقریباً 800 روپے تک ہے لیکن پاکستان میں 100 گولیوں کی قیمت تقریباً 450 روپے بنتی ہیں۔

جبکہ اس کے مقابلے میں ایک کلو گرام کی ایفیڈرل پودے کی قیمت فی کلو تین ڈالر جبکہ فی کلو نزلے زکام کی گولیوں کی قیمت تقریباً 38 ڈالر بنتی ہے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اپریل 2023 کے قیمتوں کے مطابق افغانستان میں ایک کلو گرام آئس کی قیمت تقریباً 700 ڈالر ہے۔ اسی طرح کم خالص آئس کی قیمت 413 سے 295 ڈالر تک کم ہو جاتی ہے۔

جبکہ نزلے زکام کی ادویات سے تیار کردہ آئس کی قیمت فی کلو 538 ڈالر سے 748 ڈالر فی کلو ہے اور اسی حساب سے پودے سے بنے آئس کی قیمت کم پڑتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان