فلسطین: ’جس کی لاٹھی اس کا انٹر نیشنل لا؟‘

یہ سوال آج تک عالمی ضمیر پر دستک دے رہا ہے کہ جب فلسطین میں برطانوی انتداب انٹرنیشنل لا کے تحت ایک مقدس امانت تھی تو وہ مقدس امانت فلسطینیوں کو واپس کیوں نہ کی گئی؟ اس میں خیانت کا ارتکاب کیوں کیا گیا؟

فلسطینی 31 اکتوبر 2023 کو مقبوضہ مغربی کنارے میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین کے دفتر کے سامنے (حازم بدر/ اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

لیگ آف نیشنز سے اقوام متحدہ تک، فلسطین میں جو کچھ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے، اس کا حاصل سادہ سا ایک سوال ہے: کیا انٹر نیشنل لا واقعی کوئی منصفانہ عالمی ضابطہ ہے یا یہ بین الاقوامی لاقانونیت کا دوسرا نام ہے؟

انٹر نیشنل لا، اپنی بنیادی ساخت میں انٹرنیشنل کبھی تھا ہی نہیں۔ یہ پہلی عالمی جنگ کے اتحادیوں کا متفقہ نظام قانون تھا۔ اس میں خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ یہ نظام قانون انٹر نیشنل نہیں تھا۔ یہ ایک فریق کا بنایا ہوا نظام قانون تھا۔

چنانچہ جب لیگ آف نیشنز کی شکل میں اس قانون کو ’انسٹیٹیوشنلائز‘ کیا گیا تو اس سارے عمل میں مسلم دنیا کی کوئی مشاورت شامل تھی نہ مرضی۔ 

مسلم تہذیب کو اس قانون کی فکری اور عملی صورت گری سے دور رکھا گیا۔ اس قانون کے تعین میں مغرب اور اتحادیوں کی ’جورسپروڈنس‘ تو شامل رہی لیکن اس کی تشکیل میں کہیں بھی مسلم دنیا کا کوئی تہذیبی اور قانونی حوالہ موجود نہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ مغربی قوتوں نے اپنی مرضی سے اسے انٹرنیشنل بنایا، اپنی افتاد طبع کے مطابق بنایا، اپنے تہذیبی پس منظر میں بنایا، اپنے فکری سانچے میں بنایا لیکن اس کے باوجود جب اسی قانون کے اطلاق کی بات آئی تو ان قوتوں نے اس پر عمل کرنے سے انکار دیا۔

لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 کے مطابق جب فلسطین کو برطانوی نگرانی میں دیا گیا تو اس کے لیے ’sacred trust‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ یعنی یہ فلسطین پر برطانوی قبضہ نہ تھا۔ بلکہ اب انٹرنیشنل لا یہ طے کر چکا تھا کہ کسی ملک پر طاقت کے ذریعے قبضے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن اس چارٹر کو پامال کرتے ہوئے برطانیہ اور اتحادیوں نے فلسطین کی تقسیم کا فارمولا پیش کر دیا۔

 برطانیہ کے پیل کمیشن نے جب فلسطین میں فلسطین کے ساتھ ایک اور ریاست (اسرائیل)  کے قیام کی تجویز دی تو یہ لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 کی خلاف ورزی تھی۔ لیکن انٹر نیشنل لا کی اس پامالی پر بالکل بدمزہ نہ ہوا، نہ ہی وہ اس منصوبے کو روک سکا۔ 

یہ سوال آج تک عالمی ضمیر پر دستک دے رہا ہے کہ جب فلسطین میں برطانوی انتداب انٹرنیشنل لا کے تحت ایک مقدس امانت تھی تو وہ مقدس امانت فلسطینیوں کو واپس کیوں نہ کی گئی؟ اس میں خیانت کا ارتکاب کیوں کیا گیا؟

لیگ آف نیشنز کے وضع کردہ قانون کے مطابق فلسطین برطانیہ کو بطور امانت اس لیے دیا گیا کہ وہ مقامی لوگوں کو حکومت کرنے کے قابل بنا سکے۔ (وائٹ مینز برڈن کا تصور قابل غور ہے)، اور جب وہ اس قابل ہو جائیں تو امانت ان کو واپس کر دی جائے۔ لیکن یہ انٹرنیشنل لا فلسطینیوں کو یہ امانت آج تک واپس نہیں کر سکا۔

لیگ آف نیشنز ختم ہوئی اور اقوام متحدہ وجود میں آ گئی تو انٹرنیشنل لا میں ارتقا ہوا۔ اس ارتقائی عمل میں بھی مسلم تہذیب سے کوئی مشاورت شامل نہ تھی۔ یہ ان ہی قوتوں کا انٹر نیشنل لا تھا۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان ہی قوتوں نے فلسطین کے معاملے میں خود اپنے بنائے انٹر نیشنل لا کو پامال کیا اور آج تک کر رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے چارٹر میں لکھا ہے کہ ہر ملک کی سلامتی کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس چارٹر میں اقوام کے حق خودارادیت کی بات کی گئی ہے۔ یہ چارٹر طے کر چکا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور طاقت کے ذریعے کسی ملک کی سلامتی خطرے میں نہیں ڈالی جا سکتی۔ 

لیکن اقوام متحدہ نے اسی چارٹر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1947 میں فلسطین کی ریاست کی سلامتی کو پامال کرتے ہوئے وہاں اسرائیل قائم کیا۔ باوجود اس بات کے کہ  1947 مین فلسطین کی 94 فیصد زمین کے مالک فلسطینی تھے۔ 

اس سوال کا جواب آج بھی اقوام متحدہ کے ذمے ہے کہ کیا اقوام متحدہ کا چارٹر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک ریاست میں اس کی 94 فیصد زمین کے مالک مقامی لوگوں سے ان کا نصف ملک چھین کر ان کے حوالے کر دیا جائے جنہیں باہر سے لا کر یہاں آباد کیا گیا ہو؟ اور جو وہاں کی صرف پانچ فیصد زمین کے مالک ہوں؟ اور اس میں سے بھی تین چوتھائی زمین ریاست فلسطین کی ملکیت ہو جو انہیں  غیر قانونی طور پر بانٹی گئی ہو۔ 

جب اقوام متحدہ کی کمیٹی نے فلسطین کی تقسیم کا فارمولا دیا تو فلسطینیوں نے ایک ہی مطالبہ کیا: ہمارے ساتھ اقوام متحدہ اپنے چارٹر کے مطابق سلوک کرے۔ اقوام متحدہ آج تک نہیں بتا سکی کہ انٹرنیشنل لا کی روشنی میں اس جائز مطالبے کو کیوں منظور نہیں کیا گیا۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا جنرل اسمبلی کو انٹرنیشنل لا یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی ملک کی سلامتی کو پامال کرتے ہوئے اس کے حصے بخرے کر دے؟ کیا جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کے چارٹر میں طے کیے گئے بنیادی اصولوں کو پامال کر سکتی ہے؟

انٹر نیشنل لا کے مطابق جنرل اسمبلی تو کسی جارح ملک کے خلاف بھی طاقت استعمال نہیں کر سکتی۔ اس صورت میں بھی سلامتی کونسل فیصلہ کرے گی۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ جنرل اسمبلی نے ایک ایسے ملک کے دو حصے کر دیے جس نے کوئی جارحیت یا غیر قانونی کام بھی نہیں کیا تھا ؟

معاہدہ پیرس اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اب کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ جنگ کرے اور کسی ملک کا جغرافیہ بدل دے۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ اختیار جنرل اسمبلی کو کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ جنگ کے بغیر کسی ملک کا جغرافیہ بدل دے اور وہاں کے باشندوں اور 94 فیصد زمین کے مالکان کی مرضی کے خلاف بدل دے؟

لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاملہ یہ بھی ہے کہ انٹرنیشنل لا فلسطینیوں کے مقبوضہ علاقے خالی نہیں کرا پا رہا۔ انٹرنیشنل لا نے یروشلم کے جس شہر کو corpus separatum  قرار دیا تھا اس پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہے۔ فلسطین کے علاقوں پر قبضہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی نفی ہے لیکن corpus separatum  پر قبضہ تو یوں سمجھیے کہ ساری دنیا کی توہین ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ اس پر خاموش یا بے بس کیوں ہے؟

سوال تو ویسے یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو یہ حق کہاں سے مل گیا کہ وہ کسی ملک کی زمین کو اس ملک کا حصہ سمجھنے کی بجائے corpus separatum قرار دے دے؟ کیا یہ فلسطین کی سلامتی اوراس کی جغرافیائی خود مختاری کی توہین نہ تھی؟ کیا یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی نہ تھی؟ 

عالمی عدالت انصاف اسرائیل کی فلسطین کے علاقوں میں ناجائز آبادکاری اور دیوار کی تعمیر کے خلاف اپنا موقف دے چکی ہے، اقوام متحدہ اس کے نفاذ میں بے بس کیوں ہے؟

غزہ میں اسرائیل نے وہ تمام قوانین پامال کر دیے ہیں جو انٹرنیشنل لا نے جنگوں کے حوالے سے وضع کر رکھے ہیں۔ اقوام متحدہ اپنے سربراہ سمیت بے بس  کیوں کھڑی ہے۔ 

یہ کیسا قانون ہے، جس کے اطلاق کے ذریعے، جنگی جرائم یا جارحیت روکنے کے لیے ساری دنیا مطالبہ کر رہی ہو تو ایک ملک اس مطالبے کو ویٹو کر دیتا ہے؟ انٹرنیشنل لا کیا واقعی ایک قانون ہے یا یہ بین الاقوامی لاقانونیت کا نام ہے؟

کیا انٹرنیشنل لا اپنی قوت نافذہ کھو چکا ہے؟ اور اگر کھو چکا ہے تو کیا یہ کوئی حادثہ ہے یا ’قانون سازوں‘ کا یہ اہتمام ہے کہ انٹر نیشنل لا کے اقوال زریں کا اطلاق ’بندہ دیکھ کر کیا جائے گا؟‘

کیا بھینس کی طرح انٹرنیشنل لا بھی اس کی ملکیت ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر