جب شاید آپ یہ سوچیں کہ بہتر ہوگا یورپ میں الیکشن کی بجائے اس براعظم کے لیے پریشانی کا سبب بننے والے بہت سے دیگر مسائل پر توجہ دی جائے، عین اس وقت نیدرلینڈز کے رائے دہندگان کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کے عروج کا خدشہ ہے۔
رواں ہفتے انتخابات میں 150 میں سے 37 پارلیمانی نشستوں کے ساتھ با آسانی سر فہرست جماعت فریڈم پارٹی (پی وی وی) تجربہ کار قوم پرست سیاست دان گیرٹ ولڈرز کی تھی۔
اس کے بعد بالترتیب 25 اور 24 نشستوں کے ساتھ بائیں بازو کا اتحاد (جس کی سربراہی ایک اور سیاسی تجربہ کار فرانس سمرمینز کر رہے تھے) اور وسطی دائیں بازو کی جماعت بھی تھی، کی ہی قطار میں دائیں سے بائیں بازو کی سیاست والی چھوٹی جماعتیں تھیں۔
ولڈرز ایک طویل عرصے سے ہالینڈ کی سیاست کا حصہ رہے ہیں، وہ 25 سال قبل پارلیمنٹ میں داخل ہوئے اور 2006 میں اپنی فریڈم پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس بار اپنے مسلم مخالف عزائم کو کسی حد تک کم کرتے ہوئے، وہ ہجرت کے خلاف دشمنی کے اپنے معروف پلیٹ فارم پر کھڑے رہے، جسے وہ ڈچ قومی شناخت کو کمزور کرنے اور یورپی یونین سے نکلنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لیکن اس بار، ایک بڑے معاملے میں، وہ ایک کھلے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ وہ اتحاد جس نے تقریباً دو سال تک نیدرلینڈز پر حکومت کی تھی اور کنزرویٹو پارٹی کے مارک روٹے کو ریکارڈ 13 سال تک وزیر اعظم رہنے کے قابل بنایا تھا، پناہ گزینوں کے تنازع پر ٹوٹ گیا۔
روٹے حکومت نے پناہ گزینوں کی غیر معمولی تعداد اور بھرے ہوئے کیمپوں کے متعلق عوامی تشویش کے ردعمل میں پناہ کی درخواستوں پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی تھی اور ناکام رہی تھی۔
چھوٹی سی مسیحی جماعت نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اگر انحصار کرنے والوں کی تعداد محدود ہو تو خاندانوں کو تقسیم کیا جا سکتا ہے اور چونکہ چھوٹی مذہبی جماعتوں کے ساتھ خطرہ تھا، تو کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا تھا۔
اتحاد کی تشکیل نو نہیں کی جا سکی، اور ولڈرز کو آنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ شاید یہ زیادہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ ان کی پارٹی نے اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی جیت کے مارجن کی پیش گوئی نہیں کی گئی تھی۔
تاہم، ضروری یہ ہے کہ اس خیال کو نہ جھٹکیں کہ یا تو انتہائی دائیاں بازو نیدرلینڈز میں اقتدار کی دہلیز پر ہے یا پھر نازی ازم جیسی کوئی بھی چیز – نیو، لائٹ، یا کسی اور شکل میں – پورے یورپ میں پھیل رہی ہے۔
یہ طریقہ ایک جیسا نہیں ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی طاقت، اگر ہمیشہ با اثر نہ بھی ہو، تو محدود ضرور رہتی ہے – اکثر انہی جمہوری اداروں کی وجہ سے جو اس کے امیدواروں کو انتخابات میں کھڑے ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں یورپ کے اندر دو طرفہ رجحان رہا۔ اکتوبر میں سلوواکیہ، جو ایک چھوٹے سا ملک (55 لاکھ آبادی) ہے، نے سابق وزیر اعظم، ایک قوم پرست رابرٹ فیکو کی سمر پارٹی کو 23 فیصد ووٹوں کے ساتھ سرفہرست بنا دیا۔
چند ہفتوں بعد ہی پولینڈ (تین کروڑ 80 لاکھ) نے سابق وزیراعظم اور یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کی سوک کولیشن پارٹی کو فتح دلائی، جو یورپی یونین کے حامی سینٹرسٹ تھے، جنہوں نے قوم پرست قدامت پسند لا اینڈ جسٹس پارٹی کو نکال باہر کیا۔ کسی بھی مخلوط حکومت پر ابھی اتفاق نہیں ہوا، لیکن امکان یہ ہے کہ اس کی سربراہی ٹسک کریں گے۔
اب، یہ دلیل دینا ممکن ہے کہ پولینڈ نے بڑے رجحان کے سامنے مزاحمت کی ہے۔ اگر آپ پچھلے ایک سال پر نظر ڈالیں تو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ تاہم جارجیا میلونی اس میں شامل نہیں جو اٹلی کے انتخابات میں (کم ٹرن آؤٹ) پر پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔
حتیٰ کہ اگر انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں انتخابات میں سب سے آگے ہیں، ہوسکتا ہے وہ نتیجے میں آنے والی حکومت کی سربراہی نہ کریں یا حکومت کا حصہ بھی نہ ہوں- جو کہ ابھی تک ہالینڈ میں ہو سکتا ہے۔
دوسری پارٹیاں ان کے اقتدار کا راستہ روکنے کے لیے اکٹھی ہو جاتی ہیں، یا وہ کسی ایسے اتحاد میں شامل ہو جاتی ہیں جہاں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اقتدار میں ان کا حصہ ہوتا ہے، تب بھی وہ طاقت محدود ہوتی ہے۔
اپریل میں فن لینڈ کے انتخابات میں کنزرویٹو نے کامیابی حاصل کی تھی، اور قوم پرست فنس پارٹی نتیجے میں بننے والے اتحاد میں شامل ہے۔
سویڈن میں گذشتہ سال ہونے والے انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹس سرفہرست تھے لیکن دائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت کے الف کرسٹرسن ایک اقلیتی حکومت کے وزیر اعظم بن گئے ہیں جن کا انحصار دائیں بازو کے سویڈن ڈیموکریٹس کے ساتھ ووٹنگ ارینجمنٹ ہے۔
نہ ہی حالیہ یورپی انتخابی نتائج کی وضاحت کے طور پر انتہائی دائیں بازو کی طرف غیر متزلزل تبدیلی کے علاوہ دیگر وجوہات کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک حکومت کی ذمہ داری ہو سکتی ہے، جس کی جزوی طور پر وضاحت کووڈ وبائی مرض کے دوران کئی حکومتوں – دائیں یا بائیں – کی ناکافی کارکردگی اور حکومت پر عام اور بظاہر بڑھتی ہوئی عوامی عدم اعتماد کی وجہ سے کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ہمارے دور کا سب سے بڑا مسئلہ پناہ کی تلاش، بالخصوص جس کو بے قاعدہ نقل مکانی کہا جاتا ہے، جو کسی بھی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے لیے انتہائی سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔
لیکن کیا یہ پناہ کی تلاش کے بارے میں عوامی تشویش اور اقتدار میں رہتے ہوئے مرکزی دھارے کی جماعتوں کی تعداد کو کم کرنے میں ناکامی پر مایوسی ہے، یا انتہائی دائیں بازو نے اپنے مقاصد کے لیے غیر ملکیوں سے نفرت کے شعلوں کو ہوا دی ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک فرق ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے نے نارڈک ممالک میں رائے عامہ کو خاص طور پر سلامتی پر مبنی دائیں بازو کی طرف راغب کرنے میں بھی مدد کی ہوگی۔
بہت سے پارٹی نظاموں کی تقسیم کا بھی ایک کردار ہو سکتا ہے۔ نیدرلینڈز کی نئی پارلیمان میں 16 جماعتوں کی نمائندگی کا امکان ہے۔ ولڈرز فریڈم پارٹی کی طرح 150 نشستوں والی مقننہ میں 37 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو شاید بہت زیادہ حمایت حاصل ہے، جبکہ حقیقت میں اس کے پاس صرف 25 فیصد نشستیں ہیں۔
یہاں مزید دو مشاہدات بنتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ زیادہ تر ممالک میں جہاں انتہائی دائیں بازو نے کامیابیاں حاصل کی ہیں یا اثر و رسوخ حاصل کیا، وہاں اندرونی سیاست کا ایک تاریخی پہلو موجود ہے، حالانکہ وہ اپنی اصل صورت میں چل رہا ہے۔ اٹلی اور فرانس میں (لی پین خاندان کے ساتھ) انتہائی دائیں بازو کی جڑیں اور پس منظر بہت واضح ہیں، اور جرمنی میں بھی، جہاں متبادل فر ڈوئچ لینڈ نے خاص طور پر سابق مشرق میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
ایسا ہی کچھ آسٹریا میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں نازی جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود کرٹ والڈہیم کو متنازع طور پر صدر منتخب کیا گیا تھا، اور جورگ حیدر کی فریڈم پارٹی 1999 کے عام انتخابات میں تقریبا 30 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد اقتدار میں شامل ہوئی۔
آسٹریا کی سیاست میں قوم پرست اور تارکین وطن مخالف دائیاں بازو اب بھی موجود ہے۔ اس سے پہلے نیدرلینڈز کے اندر انتخابات میں پروفیسر سے مسلم مخالف سرگرم کارکن بننے والے پیم فورٹوئن تھے، جنہیں 2002 کی انتخابی مہم کے دوران ایک ماحولیاتی مہم چلانے والے نے قتل کر دیا تھا۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ حکومت میں انتہائی دائیں بازو کی شمولیت کسی بیمار جسم میں ویکسین کے طور پر بھی کام کر سکتا ہے۔
آسٹریا میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت عوامی حمایت حاصل کرنے کے بعد کھوچکی ہے، اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ سال ہونے والے انتخابات سے پہلے اس میں تیزی آتی دکھائی دے رہی ہے۔
یہ برطانیہ میں بھی حیرت انگیز طور پر سچ ثابت ہوا ہے، جہاں برٹش نیشنل پارٹی نے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل مقامی انتخابات میں کچھ کامیابیوں کے بعد کبھی بھی اپنی مقبولیت حاصل نہیں کی۔ اس کا ردعمل سڑکوں پر سیاست کا ایک سہارا رہا ہے، جیسا کہ حال ہی میں یوم یادگار کے موقع پر دیکھا گیا۔
یہ سب اس دلیل کو تقویت دیتا ہے کہ نیدرلینڈز کے انتخابات میں ولڈرز کی ’ڈرامائی فتح‘ پر گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں ’فتح‘ کا مطلب ہے ڈچ پارلیمنٹ کی نشستوں کا ایک چوتھائی جیتنا، اس سے زیادہ نہیں۔ اس بات کا کوئی یقین نہیں ہے کہ ولڈرز وزیر اعظم بنیں گے۔ اگر وہ بن بھی گئے، تو اتحاد میں ان کی طاقت شدید طور پر محدود ہو جائے گی، بالکل ایسے ہی جیسا کہ اگر وہ اور ان کی پارٹی کوئی اور عہدہ لیتے ہیں تو ہوگا۔
سب سے بڑا خطرہ تب ہو سکتا ہے کہ ڈچ فریڈم پارٹی اور اس طرح کی دیگر کو مرکزی دھارے سے نکال دیا جائے۔ کم از کم اب، جمہوری انتخابات کے نتیجے میں، نیدرلینڈز اور باقی یورپ سکور جانتے ہیں۔
عام فہم ردعمل، جیسا کہ طبی ماہرین کہتے ہیں، ’چوکنا طریقے سے انتظار‘ کرنا ہوگا، جو کہ اگلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں یورپی یونین کی جانب سے ووٹنگ سے پہلے کرنا ہوگا۔
© The Independent