بلوچ مسلح تنظیموں کی تاریخ اور ان کے باہمی اتحاد کا سفر

پاکستانی فوج کے مطابق ایران کی سرزمین پر ’بلوچستان لبریشن آرمی (بی آر اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن میں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔‘

بلوچ عسکریت پسند تنظیم مجید بریگیڈ کی جاری کردہ ویڈیو سے لیا گیا سکرین گریب(مجید بریگیڈ)

پاکستان کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ پاکستان نے ایران کے سیستان بلوچستان صوبے میں پاکستانی شدت پسند تنظیموں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں کئی ’دہشت گردوں‘ کی اموات ہوئی ہیں۔

پاکستان کی جانب سے ایران کے اندر یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب بدھ کو ایران کے سرکاری میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران نے سرحد کے قریب پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے پنجگور میں ایرانی شدت پسند تنظیم جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی کی گئی اور اس حملے کے نتیجے میں دو بچوں کی موت اور تین بچیاں زخمی ہوئی ہیں۔

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بدھ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’پاکستان میں کسی بھی پاکستانی شہری کو ڈرون اور میزائل سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔‘ حسین امیر عبداللہیان نے ڈیووس میں تجزیہ کار فرید زکریا کو دیے انٹرویو میں بلوچستان میں ایرانی حملے کے حوالے سے کہا ہے کہ ’ہم نے نام نہاد جیش العدل گروہ کو نشانہ بنایا جو کہ ایک ایرانی ’دہشت گرد گروہ‘ ہے۔‘

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ’بلوچستان لبریشن آرمی (بی آر اے) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن میں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا جس کا کوڈ نام مرگ بر سرمچار تھا۔‘

پاکستانی حکام کے مطابق ماضی میں مختلف مواقع پر پاکستان نے سفارتی اور عسکری سطح پر پاکستانی شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی، اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کی ایران کے صوبے سیتستان بلوچستان میں موجودگی کے حوالے سے ایران کو آگاہ کیا ہے۔

مئی 2020 میں اس وقت کے پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے تہران سے درخواست کی تھی کہ وہ ایران کی زمین پر موجود ان شدت پسند گروہوں کا خاتمہ کرے جو پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور یہ درخواست اس وقت کی گئی تھی جب بلوچستان کے علاقے کیچ میں سرحد پار سے حملے میں پاکستان فوج کے چھ سکیورٹی اہلکار جان سے گئے تھے۔

بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں کیا ہے؟

امریکہ کا غیر سرکاری ادارہ نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ دفاعی امور کے حوالے سے تحقیقی مقالے چھاپتا ہے اور جنوری 2023 میں یہ ادارہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں پر بھی ایک مقالہ چھاپ چکا ہے۔

اس مقالے کے مطابق: ’پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور ایران کے سیستان بلوچستان صوبے میں حکومت کے خلاف آوازیں اٹھنا نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور پاکستان کے بلوچستان صوبہ میں یہ معاملات 1950 سے چل رہے ہیں۔‘

مقالے کے مطابق بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں کی پہلی کڑی 1950 میں دیکھی گئی تھی اور اس دوران بلوچ رہنماؤں کو افغانستان میں پناہ دی جاتی تھی جبکہ اس کے بعد 1970 کے دہائی میں بھی ایسی تحریکیں اٹھی تھیں اور بلوچ مسلح گروہوں کو مبینہ طور انڈیا اور افغانستان پناہ دیتے تھے۔

اسی تحقیقی مقالے میں نشاندہی کی گئی کہ ’اس دوران سوویت یونین اور عراق کی جانب سے بھی بلوچستان اور ایران میں ان مسلح گروہوں کی معاونت کی جاتی تھی لیکن 80 اور 90 کی دہائی میں انڈیا اور افغانستان اپنی پالیسی میں تبدیلی لے آئے۔‘

بلوچ لبریشن آرمی کا قیام

نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سنہ 2000 میں ایک نیا مسلح گروپ بلوچ لبریشن آرمی کے نام سے ابھر کر سامنے آیا اور ان مسلح تنظیم کے جانب سے کارروائیوں میں تب اضافہ دیکھا گیا جب 2006 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں بااثر بلوچ رہنما اکبر خان بگٹی ایک آپریشن میں مارے گئے۔

2006 میں ہی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اس تنظیم کے ملوث ہونے کی وجہ سے پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا اور اس کے بعد برطانیہ اور امریکہ نے بھی اس تنظیم کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا۔

اس وقت پاکستان کی جانب سے افغانستان اور انڈیا پر بلوچ مسلح گروہوں کی معاونت کا الزام لگایا عائد کیا جاتا تھا۔ تاہم افغانستان اور انڈیا ایسے الزامات کی نفی کرتے رہے ہیں۔

ان مسلح گروہوں کے ارکان اور رہنماؤں نے اپنے خلاف پاکستان کی کارروائیوں کی خوف سے یورپ میں بھی پناہ حاصل کی تھی۔

پاکستان اور چین کے درمیان گوادر بندر گاہ کے استعمال کے معاہدے کے بعد ان گروہوں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔

 اسی مقالے کے مطابق بلوچ مسلح گروپ ابتدا سے یہی موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ پاکستان بلوچستان کے قدرتی ذخائر استعمال کرتا ہے لیکن بلوچستان کے لوگوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ پاکستان ان الزامات کی بارہا تردید کر چکا ہے۔

بلوچ مسلح تنظیموں کی ایران میں موجودگی

امریکہ کی جیم سٹون نامی فاؤنڈیشن کے ایک مضمون کے مطابق: ’پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مسلح تنظیمیں ایران میں سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز، چینی تنصیبات اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ میں چھپنے والے مضمون کے مطابق ان مسلح تنظیموں کو انڈیا کی حمایت بھی حاصل ہے اور بلوچستان کے مسئلے پر انڈیا بین الاقوامی فورمز بھی بات کرتا رہا ہے جبکہ پاکستان بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھاتا رہتا ہے۔

پاکستان بھی کئی مواقع پر انڈیا کی جانب سے ان مسلح بلوچ تنظیموں کی حمایت کا الزام عائد کر چکا ہے اور اس کی مثال بلوچستان سے انڈین جاسوس کلبوشن جادیو کی گرفتاری تھی جو ایرانی سرحد استعمال کر کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔

کتنی بلوچ مسلح تنظیمیں موجود ہیں؟

بلوچ لبریشن آرمی کے علاوہ بلوچستان میں وقتاً فوقتاً دیگر مسلح تنظیمیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں اور 2018 میں نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ان تظیموں نے براس (بلوچ راجی اجوئی سانگر) کے نام سے ایک اتحاد کا اعلان کیا تھا۔

انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس اتحاد میں بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ رپبلکن گارڈز شامل تھے۔

 تاہم سینٹر فار سکیورٹی اینڈ کانٹیمپرری سٹڈیزی پاکستان کے مطابق 2020 میں اس اتحاد میں سندھو دیش ویلوشنری آرمی بھی شامل ہو گئی۔ یہ تنظیم صوبہ سندھ کی پاکستان سے علیحدگی کا مطالبہ کرتی ہے۔

بلوچستان کی مسلح تنظمیں پاکستان میں مختلف شدت پسند کارروائیاں کر چکی ہیں جن میں ایک بڑی کارروائی 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر خود کش حملے تھا۔

امریکہ کے میری لینڈ یونیورسٹی کے ڈیٹا بیس کے مطابق اس حملے میں سات افراد مارے گئے تھے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان