پاکستان افغان تجارتی معاہدے میں نیا کیا اور پرانا کیا؟

افغانستان کی نگران حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات میڈیا کو جاری کیے گئے ہیں اور ان کے مطابق معاہدے کو دو ماہ کے اندر حتمی شکل دی جائے گی۔

28 مارچ 2024 کو ہونے والے اس معاہدے کے لیے مذاکرات میں افغان حکومت کی وفد کی سربراہی صنعت و تجارت کے قائم مقام وزیر الحاج نورالدین عزیزی جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی سیکریٹری کامرس محمد خرم آغا کر رہے تھے (افغان سرکاری میڈیا)

پاکستان اور افغانستان نے دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک نئے دو طرفہ تجارتی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور افغان طالبان کی نگران حکومت کے مطابق معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے مابین ’بلا روک ٹوک‘ تجارت ممکن بنانا ہے۔

یہ معاہدہ افغان طالبان کی درخواست پر پاکستانی وفد کے دورہ کابل کے دوران کیا گیا، جس میں افغان حکومت کی وفد کی سربراہی صنعت و تجارت کے قائم مقام وزیر الحاج نورالدین عزیزی جبکہ پاکستانی وفد کی سربراہی سیکریٹری کامرس محمد خرم آغا کر رہے تھے۔

طالبان کے زیر انتظام افغانستان کی نگران حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات میڈیا کو جاری کیے گئے ہیں اور ان کے مطابق معاہدے کو دو ماہ کے اندر حتمی شکل دی جائے گی۔

معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اگلے چھ ماہ میں کراچی کی بندرگاہوں پر افغانستان کے بین الاقوامی سامان کے کنٹینرز سے مقامی کنٹینرز کو سامان کی منتقلی میں معاونت فراہم کرے گی۔

اسی طرح معاہدے کے مطابق دونوں ممالک برآمدگی کے سامان کی 10 اشیا کو ٹیرف ترجیح دیں گے، جس میں آٹھ زرعی اور دو صنعتی اشیا شامل ہیں۔

دونوں ممالک کے مابین اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ ایک سال کے لیے ٹرکوں کی نقل و حرکت کے لیے ایک عارضی اجازت نامہ جاری کیا جائے گا اور یہ رواں سال مئی سے نافذ العمل ہوگا۔

دونوں ممالک کے درمیان ہوائی اڈوں کے ذریعے ملٹی ماڈل ایئر ٹرانزٹ کی شکل میں سامان کی منتقلی یقینی بنائے جائے گی، جو اگلے دو ماہ سے شروع کی جائے گی۔

اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ افغان ٹرانزٹ سامان کے لیے لازم بینک ضمانت کی شرط ختم اور ماضی کی طرح انشورنس کافی سمجھی جائے گی جبکہ دونوں ممالک بارٹر تجارت (سامان کے بدلے سامان) کی حوصلہ شکنی اور بینکنگ چینل کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔

معاہدے میں کوئلے کی تجارت پر بھی بات کی گئی اور افغان حکومت کی مطابق پاکستان کے بین الاقوامی قیمت پر کوئلہ خریدنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کچھ عرصے سے تناؤ کا شکار رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی کا گلہ ہے۔

پاکستان شکایت کرتا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے اور اسی سلسلے میں گذشتہ دنوں پاکستان نے افغانستان کے پاکستانی سرحد کے قریب صوبوں میں شدت پسند حافظ گل بہادر گروپ کے خلاف فضائی آپریشن کیا تھا۔

یہی تناؤ برقرار تھا کہ افغان طالبان کی سرکاری دعوت پر تجارت کے فروغ کے لیے پاکستانی وفد نے کابل کا دورہ کیا اور یوں دونوں ممالک کے مابین ایک نیا تجارتی معاہدہ طے پا گیا۔

ماضی میں کیے گئے معاہدے

پاکستان اور افغانستان کے مابین یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فریقین نے تجارتی معاہدے پر اتفاق کیا بلکہ ماضی میں بھی دونوں پڑوسی ممالک نے تجارتی معاہدے کیے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین پہلا تجارتی معاہدہ 1965 میں اس وقت کیا گیا جب کابل میں سردار محمد داؤد کی حکومت کو ظاہر شاہ نے ختم کر دیا اور بعد میں پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے پایا۔

پاکستان سوشل سائنس ریویو نامی جریدے میں شائع 1965 کے تجارتی معاہدے کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ تجارتی معاہدہ تو کیا گیا لیکن اس کے اتنے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔

تاہم جریدے کے مطابق معاہدے کے بعد لاجسٹک کے نئے طریقہ کار اپنانا، سامان کی ترسیل کے لیے بڑے ٹرکوں کو شامل کرنا، کسٹم نظام کو بنانا اور سکیورٹی معاملات ضرور بہتر ہوئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی جریدے کے مطابق 1965 کے تجارتی معاہدے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان اپنے سامان کو وسطی ایشیائی ممالک کو برآمد کرنے کے لیے آسانیاں پیدا کرنا چاہتا تھا۔

تاہم تقریباً 40 سال بعد دونوں ممالک نے محسوس کیا کہ اب ایک نئے تجارتی معاہدے کی ضرورت ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں سویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا اور 2001 میں نیٹو افواج کا افغانستان میں داخل ہونا شامل تھا۔

پاکستان سوشل سائنس جریدے کے مطابق سویت یونین کی شکست کے بعد پاکستان وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت میں دلچسپی رکھتا تھا جبکہ دوسری جانب 2001 کے بعد امریکہ کو اپنی افواج کو سامان کی ترسیل کے لیے راستہ چاہیے تھا۔

افغانستان کی جانب سے 1965 کے معاہدے کے بعد نئے معاہدے میں دلچسپی یہ تھی کہ وہ پاکستان کی بندرگاہوں کو تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا اور دوسری وجہ افغانستان کا انڈیا کے ساتھ پاکستانی راستے سے تجارت کو فروغ دینا تھا اور 1965 کے معاہدے کے مطابق یہ ممکن نہیں تھا۔

ان ہی وجوہات کی وجہ سے 2010 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک نیا تجارتی معاہدہ طے ہوا اور اس میں ایک اہم نکتہ یہی تھا کہ اس وقت کے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے واہگہ بارڈر کے ذریعے افغانستان کو تازہ پھل اور سبزیوں کو انڈیا سپلائی کرنے کی اجازت دی۔

تاہم 2010 کے معاہدے کے مطابق انڈیا کو اجازت نہیں تھی کہ پاکستان کے راستے اپنا سامان افغانستان سپلائی کریں اور اس معاہدے کے دوران اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، افغانستان کے اس وقت کے صدر حامد کرزئی اور امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن موجود تھیں۔

جریدے کے مطابق 1965 کے معاہدے کے مقابلے میں 2010 کا تجارتی معاہدہ عالمی تجارتی اور کسٹم  قوانین کے مطابق کیا گیا تھا اور معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے عالمی اداروں جیسے کہ ورلڈ بینک کی خدمات بھی لی گئی تھیں۔

2010 کے معاہدے میں پہلی مرتبہ افغانستان کو پاکستانی بندرگاہیں سامان کی ترسیل کے لیے استعمال کی اجازت دے دی گئی تھی جبکہ اس وقت معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ مستقبل میں انڈیا کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا جائے گا۔

نئے اور 2010 معاہدے میں کیا مشترک ہے؟

اس معاہدے میں افغانستان سے سپلائی شدہ سامان کے لیے بینک کی گارنٹی میں کمی گئی تھی لیکن اب نئے معاہدے میں بینک گارنٹی کو ختم کر دیا گیا ہے اور اور صرف انشورنس پر اکتفا کیا گیا ہے۔

اسی طرح 2010 کے معاہدے میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ افغانستان سے انڈیا سپلائی کیے گئے سامان پر پاکستان میں فنانشل سکیورٹی چارج نہیں کی جائے گی لیکن اب نئے معاہدے میں اب تک کی تفصیلات کے مطابق انڈیا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

تاہم افغانستان اب بھی پاکستانی راستے سے اپنا سامان انڈیا سپلائی کرتا ہے اور اسی حوالے سے گذشتہ روز پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں دھمکی بھی دی تھی کہ اگر افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ترک نہ کی تو وہ پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ کی انڈیا سپلائی کو بند کر دیں گے۔

وسطی ایشیا کے ممالک کو پاکستانی اشیا کی ترسیل کے حوالے سے 2010 کے معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ اس پر افغانستان کی حدود میں کوئی فنانشل سکیورٹی ادا نہیں کی جائے گی لیکن ابھی نئے معاہدے میں وسطی ایشیا کو پاکستان کی سامان کی ترسیل کے حوالے سے کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

زمینی راستے سے تجارت کے حوالے سے 2010 کے معاہدے کے مطابق پاکستانی اشیا کو افغانستان سے متصل ممالک کو ترسیل کی اجازت ہوگی اور اس کے لیے انٹری اور ایگزٹ راستے بھی متعین کیے گئے تھے۔

ان راستوں میں ایران کو سپلائی کے لیے زرنج اور اسلام قلعہ، ترکمانستان کو ترسیل کے لیے ترغندی اور اقینہ، ہیراتان کے راستے ازبکستان کو جبکہ شیر خان بندر اور علی خانم کے راستے تاجکستان کو پاکستانی اشیا کی ترسیل کی اجازت شامل ہے۔

2010 کے اس معاہدے میں طورخم بارڈر، بلوچستان میں سپین بلدک جبکہ وزیرستان کے غلام خان بارڈر کو زمینی تجارت کے لیے شامل کیا گیا تھا جبکہ افغان ٹرانزٹ کو گوادر اور کراچی پورٹ قاسم کی بندرگاہیں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اب نئے معاہدے میں کراچی بندرگاہ کو استعمال کرنے اور وہاں پر افغان کنٹینرز کو آسانیاں پیدا کرنے پر دونوں ممالک کے مابین اتفاق کیا گیا ہے لیکن نئے معاہدے میں اب تک کی تفصیلات کے مطابق گوادر بندرگاہ کا ذکر نہیں ہے۔

افغانستان پاکستان کی بندرگاہیں بطور ٹرانزٹ روٹ استعمال کر رہا ہے جبکہ 2019 میں افغانستان نے ایران کی چابہار بندرگاہ کو بھی انڈیا سامان سپلائی کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے تاہم انڈیا کو اجازت نہیں ہے کہ وہ پاکستانی بندرگاہ کو افغانستان تک سامان سپلائی کرنے کے لیے استعمال کریں۔

دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں اس معاہدے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت