برفانی تیندوا: ڈپلومیسی یا بے اعتنائی؟

بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر پاکستان نے اسلام آباد کی جانب سے ماسکو کو دو برفانی تیندوے دینے کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ پاکستان ہی میں اس جانور کی نشوونما اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

20 اپریل 2025 کو سینٹیاگو کے بون چڑیا گھر میں ایسٹر کی تقریب کے دوران ایک برفانی تیندوا پھلوں کے انڈے کھا رہا ہے (راول براوو/اے ایف پی)

رواں سال مارچ میں تاتارستان کے دارالحکومت کاذان میں برفانی تیندووں کے تحفظ کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان سمیت ان 12 ممالک کے عہدیداروں نے شرکت کی جہاں برفانی تیندوے پائے جاتے ہیں۔

اس کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ اس جانور کو مکمل طور پر ناپید ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات لینے چاہییں اور یہ 12 ممالک اس کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات لے چکے ہیں۔

تاتارستان کی کاوشوں کی وجہ سے التائی ریپبلک میں ایک ریسرچ سینٹر قائم کیا گیا ہے، جہاں برفانی تیندووں کا مطالعہ کیا جائے گا اور ان کی بریڈنگ بھی۔ التائی ریسرچ سینٹر میں اس وقت چار برفانی تیندوے ہیں، جن میں سے تین قرغزستان اور ایک اورل چڑیا گھر سے لایا گیا ہے۔

اس کانفرنس میں بتایا گیا کہ روس میں برفانی تیندووں کی سب سے کم تعداد ہے، جو کہ 90 ہے۔ لیکن یہ 90 تیندوے دس سال پہلے صرف 15 ہوتے تھے، اور روس نے ان کے تحفظ کے لیے جو اقدامات اٹھائے اور اٹھا رہا ہے، ان کی وجہ سے ان کی تعداد 90 تک پہنچ چکی ہے۔ دوسری جانب چین میں چار ہزار برفانی تیندوے ہیں، جن میں سے ایک ہزار کے لگ بھگ منگولیا میں پائے جاتے ہیں۔

اس کانفرنس میں پاکستان اور منگولیا دونوں ہی ممالک نے کہا کہ اس جانور کو سب سے بڑا خطرہ مقامی آبادی سے ہوتا ہے کیونکہ یہ ان لوگوں کی بھیڑ بکری کا شکار کرتے ہیں اور ان کو بچانے کے لیے لوگ ان کو مار ڈالتے ہیں۔ ان دونوں ممالک نے ان افراد کو، جن کے جانور برفانی تیندووں کی غذا بن جاتے ہیں، حکومت کی جانب سے جانور دیے جانے کا نظام شروع کیا ہے، اور اس عمل سے دونوں ہی ممالک میں اس جانور کی تعداد میں اضافہ ہونے میں بہت مدد ملی ہے۔

اسی کانفرنس میں ایک ملک نے ایک سنسنی خیز اعلان کیا، اور ایسا ملک جس میں محض 300 برفانی تیندوے ہیں۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ دو تیندوے ماسکو چڑیا گھر کو تحفے میں دے رہا ہے۔ ایک بچہ ہے، جس کی ماں کو شکاریوں نے مار دیا، اور دوسرا ایک بڑی مادہ ہے۔ تحفہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ماسکو کے چڑیا گھر میں جو برفانی تیندوے ہیں وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، اور ضروری ہے کہ نئے برفانی تیندوے لائے جائیں۔ اور یہ ملک تھا پاکستان، اور اس کا اعلان پاکستان کے نمائندے سردار لغاری نے کیا۔

اس اعلان پر التائی ریسرچ سینٹر کے سربراہ نے پاکستان سے کہا کہ ایک برفانی تیندوا کیا پاکستان تاتارستان کو بھی دے سکتا ہے، جس پر سردار لغاری نے کہا کہ وہ اس بات کا اعلان کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ماسکو کے چڑیا گھر کو جو تیندوے دیے جا رہے ہیں، ان کا معاہدہ اعلیٰ سطح پر ہوا تھا اور فیصلہ خود پاکستان کے وزیرِ اعظم نے کیا تھا۔

دوسری جانب بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان نے پاکستان کی جانب سے ماسکو کو دو برفانی تیندوے دیے جانے کی مخالفت کی ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان ہی میں اس جانور کی نشوونما اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ روس کو تیندوے دیے جانا نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس جانور کے تحفظ کے لیے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔

ماسکو کو تیندوے دینا خطرے سے دوچار انواع کے حوالے سے کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت اس قسم کی ٹرانسفر غیر معمولی حالات میں کی جا سکتی ہے۔ اور پاکستان سے برفانی تیندوے ایک ایسے ملک دیے جا رہے ہیں جہاں یہ جانور پایا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ پاکستان دو برفانی تیندوے ماسکو بھیجے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے کیے گئے وعدے پورے کرے اور برفانی تیندووں کے تحفظ کے لیے کام کرے۔

ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان میں لگ بھگ 200 برفانی چیتے موجود ہیں، لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تعداد صحیح نہیں ہے، اور منظم تحقیق کی عدم موجودگی کے باعث ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

ایک طرف جہاں انسانی عمل دخل کے باعث ان کے مسکن سکڑتے جا رہے ہیں، وہیں موسمیاتی تبدیلی بھی ان پر اثر انداز ہو رہی ہے۔

برفانی چیتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث مسکن میں کمی واقع ہو رہی ہے، اور شمالی علاقہ جات میں ان کے مسکن کافی حد تک کم ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور انسانی عمل دخل کے باعث برفانی چیتے شمال کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، جس کے باعث یہ جانور پاکستان میں ناپید ہو جائے گا۔

چند دہائیوں قبل برفانی چیتا سوات اور دیر کے علاقوں میں بھی پایا جاتا تھا، لیکن اب یہ صرف شمالی علاقہ جات میں غذر، ہنزہ، استور اور گھانچے کے علاقوں ہی میں پایا جاتا ہے۔

برفانی چیتوں کا مسکن بلند و بالا برف سے ڈھکے پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایشیا میں دو ملین مربع کلومیٹر میں پائے جاتے ہیں۔ اس جانور کا مسکن درختوں سے اوپر کے علاقے میں ہوتا ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں اضافے سے ان کے مسکن سکڑتے جا رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث برف پگھل رہی ہے اور درختوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کے باعث برفانی چیتوں کو مزید اونچائی پر جانا پڑ رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیٹلائٹس سے لی گئی تصاویر پر مبنی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گلیشیئر جھیل کے حجم میں 150 مکعب کلومیٹر اضافہ ہوا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 1994 اور 2017 کے درمیان دنیا کے گلیشیئر جھیلوں سے 65 کھرب ٹن پانی کا اخراج ہوا ہے۔

گذشتہ 100 سال میں سمندر کی سطح میں اضافے کا 35 فیصد حصہ گلیشیئر کے پگھلنے کے باعث ہوا۔

ایک تازہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ قراقرم گلیشیئرز کی گذشتہ 40 سال کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بڑے ہوتے ہوئے گلیشیئرز کے گلیشیئر جھیل میں بدل جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگرچہ یہ جھیلیں تازہ پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں، لیکن جب ان کا بند ٹوٹتا ہے تو بہت تباہی مچاتی ہیں۔

ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث برفانی چیتوں کے مسکن میں اوسطاً 30 فیصد کمی واقع ہو گی۔ برفانی چیتوں کے لیے 30 فیصد کمی کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے کیونکہ ہر ایک برفانی چیتے کو ایک بڑا علاقہ درکار ہوتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور اس کے باعث مسکن میں کمی سے ان کے شکار میں بھی کمی واقع ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ایلپائن ماحولیاتی نظام بھی متاثر ہو گا، جس کی وجہ سے چرنے کے لیے آنے والے جانوروں میں بھی کمی واقع ہو گی، جس سے برفانی چیتے کے شکار میں کمی ہو گی۔ موسمیاتی تبدیلی سے اس علاقے کا لینڈ سکیپ متاثر ہو رہا ہے۔

جنگلی حیات کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ جنگلات اور جنگلی حیات کو محفوظ رکھنے کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے جس پر من و عن عمل کیا جائے تاکہ برفانی چیتوں کے ساتھ ساتھ دیگر جنگلی حیات کو محفوظ کیا جا سکے اور انہیں معدومیت کی جانب نہ دھکیلیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ