امریکہ کابل کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا: بائیڈن کی غنی کو یقین دہانی

وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر جو بائیڈن نے افغان صدر اشرف غنی سے ٹیلی فون پر بات کی ہے اور یقین دہانی کروائی ہے کہ امریکہ افغان مسئلے کے سیاسی اور پائیدار حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔

25 مارچ 2015 کی اس تصویر میں افغان صدر اشرف غنی جو بائیڈن سے ہاتھ ملاتے ہوئے (ا ے ایف پی)

ایسے وقت میں جب افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا جاری ہے اور طالبان کے حملوں نے امریکی حمائت یافتہ کابل حکومت پر دباؤ بڑھا رکھا ہے، امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے افغان صدر اشرف غنی کو یقین دلایا ہے کہ امریکہ افغانستان کی سفارتی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد جاری رکھے گا۔ 

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ٹیلی فون کال کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور افغان صدر اشرف غنی نے ’اتفاق کیا ہے کہ طالبان کی حالیہ جارحیت ان کے اس دعوے کے بالکل برعکس ہے کہ وہ لڑائی کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ بائیڈن 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد سے افغانستان میں جاری امریکی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور 31 اگست تک ملک سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کر چکے ہیں۔ 

اس سال اپریل میں غیرملکی فوجوں کے افغانستان سے انخلا کے اعلان کے بعد ملک میں تشدد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے حملے شروع کر رکھے ہیں اور وہ دیگر اضلاع اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضہ کر رہے ہیں جبکہ انہوں نے کئی صوبائی دارالحکومتوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے یا ان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

ایک سینیئر امریکی جنرل نے اس ہفتے کہا تھا کہ طالبان نے افغانستان کے تقریباً آدھے ضلعی مراکز کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ افغانستان میں حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق جمعے کو بائیڈن نے غنی کو بتایا ہے کہ امریکہ افغان مسئلے کے سیاسی اور پائیدار حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔

وائٹ ہاؤس کے مطابق بائیڈن نے صورت حال کے پیش نظر پناہگزینوں کی ’غیر متوقع طور پر فوری‘ ضروریات پوری کرنے کے لیے جمعے کو 10 کروڑ ڈالر کی منظوری دے دی ہے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بائیڈن نے انہی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امریکی اداروں کے فنڈ سے20 کروڑ ڈالر کی اضافی رقم کی بھی منظوری دی ہے۔

امریکہ ان ہزاروں افغان درخواست گزاروں کو خصوصی امیگریشن ویزا دے کر انہیں افغانستان سے نکالنے کی بھی تیاری کر رہا ہے جنہیں ماضی میں امریکہ کے لیے کام کرنے کی وجہ سے طالبان جنگجوؤں کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خطرے کا سامنا ہے۔

دوسری جانب امریکی دفتر خارجہ نے طالبان کی جانب سے سابق مترجمین اور دوسرے افغان شہریوں کو ہدف بنا کر حملوں اور بنیادی ڈھانچہ تباہ کرنے کی مذمت بھی کی ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان جلینا پورٹر نے باقاعدگی سے ہونے والی نیوز بریفنگ میں کہا: ’ہم ہدف بنا کر کیے جانے والے حملوں، ضروری بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور افغانستان کے لوگوں پر حملوں کی سختی کے ساتھ مذمت کرتے ہیں۔‘

ان تعلیم یافتہ افغانوں اور خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں، جنہیں طالبان کے دور حکومت میں سکول جانے اور ملازمت سے روک دیا گیا تھا، نے  نے عسکریت پسندوں کی تیزی سے کی جانے والی پیش قدمی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان لسانی اور فرقہ وارانہ اقلیتوں نے بھی پریشانی ظاہر کی ہے کہ جنہیں طالبان نے اسلام کی اپنی طور پر تشریح کرتے ہوئے سخت قسم کے جبر کا نشانہ بنایا تھا۔

ادھر توقع ہے کہ افغانستان سے نکالنے جانے والے افغان شہریوں اور ان کے خاندان کے پہلے گروپ کو اس ماہ کے آخر تک طیارے کے ذریعے فورٹ لی تک پہنچا دیا جائے گا۔ فورٹ لی امریکی ریاست ورجینیا میں واقع امریکی فوجی اڈا ہے جہاں افغان شہری ویزے کے لیے دی جانے والی اپنی درخواست پر کارروائی مکمل ہونے کا انتظار کریں گے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ تقریباً ڈھائی ہزار افغان شہریوں کو فورٹ پہنچایا جا سکتا ہے جو ریاست ورجینیا کے دارالحکومت رچمنڈ کے جنوب ست 30 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

اسے پہلے افغان طالبان نے کہا تھا کہ وہ اقتدار پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنا چاہتے تاہم گروپ کا اصرار ہے کہ صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور مذاکرات کے ذریعے کابل میں نئی حکومت کی تشکیل تک افغانستان میں امن کا حصول ممکن نہیں ہے۔

طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن اور گروپ کے ترجمان سہیل شاہین نے مستقبل کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب افغان تنازعے میں شامل تمام فریقوں کے لیے قابل قبول مذاکرات کے ذریعے نئی حکومت قائم ہوگی اور اشرف غنی کی حکومت چلی جائے گی تو طالبان ہتھیار ڈال دیں گے۔

سہیل شاہین نے بتایا کہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اقتدار کی اجارہ داری پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ماضی میں افغانستان میں اقتدار پر اجارہ داری قائم کرنے والی حکومتیں کامیاب حکومتیں نہیں تھیں۔ لہٰذا ہم اسی فارمولے کو دہرانا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان اشرف غنی کی حکمرانی جاری رکھنے پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ گروپ ترجمان نے افغان صدر پر جنگ کی دھمکیاں دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ عیدالاضحیٰ کے مقدس دن انہوں نے اپنی تقریر میں طالبان کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا