موسمیاتی ماہر ڈاکٹر غلام رسول نے خبردار کیا ہے کہ رواں برس ال نینو کے باعث پاکستان میں کمزور مون سون کی وجہ سے معمول سے کم بارشیں ہوں گی اور اس دوران اگر احتیاط نہ کی گئی تو 2015 کی طرح ملک میں شدید ’ہیٹ ویو‘ کے خطرات ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور عالمی موسمیاتی تنظیم میں پاکستان کے مستقل نمائندے ڈاکٹر غلام رسول نے پیش گوئی کی کہ ’عالمی سطح پر موسموں پر اثرانداز ہونے والا موسمیاتی مظہر ال نینو جولائی میں اپنے جوبن پر ہوگا۔ پاکستان میں یہ وقت مون سون کا ہے۔ ال نینو کے باعث مون سون میں معمول سے کم بارشیں ہوں گی۔‘
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’جب بارشیں ہوتی ہیں تو درجہ حرارت میں کچھ قدر کمی ہوتی ہے۔ مگر معمول سے کم بارشوں کی صورت میں شدید گرمی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
’اس سال اگر احتیاط نہ کی گئی تو جس طرح 2015 میں کراچی میں ہیٹ ویو کے باعث بڑے پیمانے پر اموات ہوئی تھیں، اسی طرح اس سال بھی ہوسکتا ہے۔‘
رواں برس کے آغاز میں محکمہ موسمیات نے موسم گرما کے قبل از وقت آغاز، ملک کے بیشتر حصوں میں شدید گرمی اور درجہ حرارت 45 ڈگری سے زائد ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
محکمہ موسمیات کراچی کے ڈائریکٹر شاہد حیات کی جانب سے جاری الرٹ میں فروری کے وسط پنجاب میں ہیٹ ویو کی بھی پیش گوئی کی گئی تھی۔
وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے پاکستان میں گذشتہ مسلسل تین سالوں سے کرہ ارض پر شدید ترین درجہ حرات ریکارڈ کیا جا رہا ہے اور اس سال ال نینو کے باعث عالمی حدت 1.5 سے بڑھ جانے کے باعث گرمی سے متاثر ممالک پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔
محکمہ موسمیات نے 22 مئی تک ملک کے جنوبی میدانی علاقوں میں موسم خشک اور گرم رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ منگل کو جاری موسمیاتی ایڈوائزری میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے بالائی علاقوں بشمول خیبر پختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان، کشمیر اور اسلام آباد میں میں جھکڑ چلنے کے علاوہ چند مقامات پر گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
موسمیاتی ایڈوائزری کے مطابق 22 مئی تک سندھ اور بلوچستان میں موسم شدید گرم رہنے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ گرمی کی شدت میں ممکنہ اضافے کے امکان کے باعث متعلقہ محکموں کو تیار رہنے اور کسانوں کو فصلوں کو پانی دینے کے مناسب اقدامات کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
آنے والے دنوں میں پاکستان کے مختلف خطوں میں ممکنہ ہیٹ ویو کے امکان کے متعلق جاننے کے لیے رابطہ کیا تو محکمہ موسمیات کراچی کے افسر محمد انجم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’ہیٹ ویو کی پیشگی اطلاع دینا ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ کی جانب سے ہفتہ وار ایڈوائرزی جاری کی جاتی ہے۔‘
دنیا کے موسموں پر اثر انداز ہونے والے ال نینو ہے کیا؟
وسطی اور مشرقی خط استوائی بحر الکاہل کے سمندروں کا مخصوص سالوں کے مخصوص اوقات میں درجہ حرارت انتہائی بڑھ جاتا ہے۔ جسے سائنسی زبان میں ال نینو کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ال نینو کے باعث کرہ ارض پر مغرب سے مسلسل چلنے والی موسمیاتی سسٹم، جسے تکنیکی زبان میں ’ویسٹرلی ویو‘ کہا جاتا ہے، میں ایک بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ’ویسٹرلی ویو‘ میں بگاڑ کے باعث دنیا بھر کے موسم پر شدید اثراٹ ہوتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر غلام رسول: ’ال نینو کے باعث ویسٹرلی ویو میں بگاڑ کے باعث دنیا کے مختلف میں موسم یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جہاں شدید بارشیں ہوتی ہیں، وہاں اس اثر کے تحت خشک سالی اور جہاں عام طور پر خشک سالی ہوتی ہے وہاں شدید بارشیں ہوتی ہیں۔
’پاکستان میں ویسٹرلی ویو کی ہی وجہ سے مون سون بنتا ہے اور بارشیں آتی ہیں۔ اس سال ال نینو کے باعث پاکستان میں بارشیں معمول سے کم ہوں گی۔ کیوں کہ ویسٹرلی ویو میں ال نینو کے باعث ہونے والے بگاڑ کی وجہ سے گرم ہوائیں اوپر چلی جائیں گی۔ اس طرح لو پریشر نہیں بنے گا، جو سمندر سے بخارات لاکر بارشوں کا باعث بنتا ہے۔‘
کم آمدن والے علاقوں کے رہائشی بڑھتے درجہ حرارت سے متاثر
سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق کراچی شہر میں کُل 580 کچی آبادیاں ہیں۔ شہر کی تقریباً 55 فیصد آبادی ان کچی آبادیوں میں مقیم ہے۔
کراچی بندر گاہ اور لیاری کے درمیاں سمندر کے کنارے پر آباد مچھر کالونی کراچی شہر کے بڑی کچی آبادیوں میں سے ایک ہے۔
مچھر کالونی، شہر کی دیگر کچی کالونیوں کی طرح سرکاری طور پر رجسٹر نہیں ہے۔
رجسٹرڈ نہ ہونے کے باعث سرکاری ریکارڈ میں ان کچی آبادیوں کا وجود ہی نہیں ہے اس لیے سرکاری طور پر ان آبادیوں کو پانی، گیس، بجلی، تعلیم اور صحت سمیت کوئی بھی بنیادی سہولت نہیں دی جاتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکاری طور پر رجسٹر نہ ہونے کے باعث یہاں کے مکینوں کو ہر وقت گھر مسمار ہونے کا خوف ہوتا ہے۔ اس لیے بغیر کسی منصوبہ بندی کے بنی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں چھوٹے سے پلاٹ پر بلاکوں سے پتلی دیواروں کے ایک یا دو کمروں پر گھر بنائے جاتے ہیں۔
ان کمروں پر ٹین کی چادر کی چھت ڈال دی جاتی ہے۔ شدید گرمی کے دوران چھوٹے کمرے ٹین کی چادر والی چھت کے باعث تندور کی طرح تپنے لگتے ہیں۔
بنیادی سہولیات کے فقدان کے باعث ان کچی آبادیوں کے رہائشی شدید موسم سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ایک تو یہاں کے مکیوں کے آمدنی کم ہے اور اپنی آمدنی کا بڑا حصہ یہ بنیادی سہولیات حاصل کرنے کے لیے خرچ کر دیتے ہیں۔
جمیلہ بانو مچھر کالونی کی رہائشی ہیں۔ ان کے والدین نے تین کمروں کا گھر تعمیر کیا تھا، جس میں ان کے شوہر اور ان کے تین بھائیوں کے گھرانے کے 14 افراد اور ان کی بیوہ نند اکٹھے رہتے ہیں۔
جمیلہ بانو کے شوہر اور ان کے تین بھائی راج مستری کے مددگار کے طور پر مزدوری کرتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جمیلہ بانو نے بتایا: ’کبھی مزدوری ملتی ہے تو کبھی خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں۔ حالیہ مہنگائی کے دوران گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں گرمی کی موسم کے دوران گھر والوں کو گرمی سے بچانے کے لیے برف، مشروبات خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
’شدید گرمی کے دوران کئی گھنٹوں تک بجلی کی لوڈشڈنگ ہوتی ہے۔ سوچتی ہوں سولر پینل خرید لوں، مگر اب سولر پینل کی قیمتیں بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔
’جب بھی برف، مشروبات یا سولر پینل خریدنے کا سوچتی ہوں تو پھر لگتا ہے اگر گھر میں کوئی بیمار پڑ جائے تو علاج کے پیسے کہاں سے لاؤں گی؟ اس لیے کچھ پیسے علاج کے لیے رکھ لیتی ہوں۔‘
مچھر کالونی میں پانی کے سرکاری کنکشن نہ ہونے کے باعث، یہاں کے رہائشی اپنی مدد آپ کے تحت پانی کا بندوبست کرتے ہیں، موسم سرما کے دوران پانی پر رش بڑھ جاتا ہے تو مکین پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔
جمیلہ بانو کے مطابق: ’پانی بہت مہنگے دام ملتا ہے۔ مفت پانی کے لیے دور دور جانا پڑتا ہے۔ شدید گرمی میں مفت پانی کی تلاش میں کئی کئی گھنٹے مارے مارے پھرتے ہیں مگر مجبوری ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔‘