وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ہفتے کو کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، عالمی برادری اس کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک طرف مہلک ہتھیاروں سے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے تو دوسری طرف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے کے اسرائیلی جرائم کا ثبوت ہے۔‘
وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں شہباز شریف نے فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے جبری بے دخلی اور بچوں کی غذائی قلت سے متعلق انسانی امور پر اقوام متحدہ کے ادارے (او سی ایچ اے) کی تازہ رپورٹ پر عالمی برادری کے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’اقوام متحدہ کی رپورٹ گواہی دے رہی ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں بے گناہ فلسطینیوں کا لہو نہ بہایا گیا ہو۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ بتا رہی ہے کہ اسرائیل کا سب سے بڑا نشانہ فلسطینی بچے بن رہے ہیں۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’صاف نظر آ رہا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل ختم کر رہا ہے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ شروع ہوئے 322 دن ہوگئے ہیں۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ ’اگست کے مہینے میں اڑھائی لاکھ فلسطینیوں کی اپنے گھروں سے جبری بے دخلی عالمی اداروں، عالمی ضمیر اور عالمی قانون کے لیے چیلنج ہے۔
’صرف دو دن میں 146 فلسطینیوں کی اپنے گھروں سے ناحق بے دخلی سے اسرائیلی ظلم کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘
وزیراعظم کے بیان میں کہا گیا کہ ’اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ سے تصدیق ہوتی ہے کہ ایک طرف مہلک ہتھیاروں سے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے تو دوسری طرف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
بیان کے مطابق: ’شمالی غزہ میں صرف ایک فی صد اور جنوبی علاقے میں چھ فی صد بچوں کو خوراک مل رہی ہے۔ اسرائیل فضا، زمین اور سمندر سے آگ اور بارود برسا کر عام فلسطینیوں کا قتل عام تیز کر چکا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والی اسرائیلی ریاست کو کٹہرے میں کھڑا نہ کیا گیا تو عالمی ادارے خود کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس اسرائیل کے خلاف سنگین فرد جرم ہے، انسانیت کے قاتلوں کو سزا دی جائے، مظلوموں کا تحفظ کیا جائے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان فلسطینیوں خاص طور پر بچوں کے لیے خوراک کی ترسیل کو مزید تیز کرے گا۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی امداد امور کے رابطہ کار ادارے (او سی ایچ اے) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ’اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کے علاقوں میں انخلا کے احکامات کی توسیع نے اقوام متحدہ کے اداروں کی طرف سے ناکہ بندی والے علاقے میں امداد کی تقسیم کو بھی شدید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
’جہاں سے امداد اسرائیل کے زیر قبضہ داخلی راستوں سے آتی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (او سی ایچ اے) نے کہا کہ ’بدھ کو جاری کیے گئے انخلا کے اسرائیلی حکم نامے میں ’80 عارضی مقامات‘ کو شامل کیا گیا لیکن ان میں امدادی ایجنسیوں کے زیر استعمال دفاتر اور گودام بھی شامل ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
او سی ایچ اے کے مطابق ان احکامات نے ’پانی کے تین کنوؤں کو بھی متاثر کیا، جو ہزاروں لوگوں کو پانی فراہم کرنے کے کام آتے ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق ’بعض اوقات، اسرائیلی افواج سڑکوں کو بند کرنے کا حکم دیتی ہیں، جس میں مرکزی صلاح الدین شاہراہ بھی شامل ہے جو غزہ میں شمال سے جنوب تک جاتی ہے۔‘
اسرائیلی جارحیت کے ابتدائی دنوں میں ، اسرائیلی فوج نے بے گھر افراد کے لیے اپنے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
جارحیت کے پہلے ہفتے میں شمالی علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دینے کے بعد، اس نے غزہ کا ایک نقشہ شائع کیا جو کئی سو نمبر والے بلاکوں میں تقسیم کیا گیا تھا، اور المواسی کے جنوبی علاقے کو ’انسانی زون‘ قرار دیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق جنگ سے پہلے المواسی ’انسانی علاقے‘ میں فی مربع کلومیٹر 1200 افراد رہتے تھے جو اب ’30،000 سے 34،000 افراد فی مربع کلومیٹر‘ کے درمیان ہیں اور اس کا محفوظ علاقہ 50 مربع کلومیٹر سے کم ہو کر 41 ہو گیا ہے۔
اب یہ علاقہ ایک وسیع خیمہ بستی بن چکا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ خاندان انخلا کے ہر نئے حکم کے ساتھ خیمہ لگانے کے لیے جگہ کی تلاش میں ہیں۔