علاقائی امن کے حصول میں اسلام آباد کو اہم کھلاڑی سمجھتے ہیں: افغان وفد

طالبان کے کابل پر قبضہ کے ایک دن بعد  ہی افغان رہنماؤں کا ایک وفد پاکستان پہنچا تھا، جس میں افغان سپیکر ولسی جرگا میر رحمان رحمانی، صلاح الدین ربانی، محمد یونس قانونی، استاد محمد کریم خلیلی، احمد ضیا مسعود، احمد ولی مسعود، عبداللطیف پدرام شامل تھے۔

پاکستان میں موجود افغان سیاستدانوں نے اسلام آباد کو افغانستان کے حوالے سے بڑا اور اہم کھلاڑی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ 

یاد رہے کہ طالبان کے کابل پر قبضہ کے ایک دن بعد  ہی افغان رہنماؤں کا ایک وفد پاکستان پہنچا تھا، جس میں افغان سپیکر ولسی جرگا میر رحمان رحمانی، صلاح الدین ربانی، محمد یونس قانونی، استاد محمد کریم خلیلی، احمد ضیا مسعود، احمد ولی مسعود، عبداللطیف پدرام اور خالد شامل تھے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے عبداللہ جان کے مطابق وفد کے ارکان نے جمعرات کو اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے افغان مسئلہ کے حل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، جسے افغانستان میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 

’ہم نے وزیراعظم عمران خان ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ایک نیا باب کھلنے جا رہا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی امن کے حصول کے لیے اسلام آباد کو ایک اہم کھلاڑی سمجھتے ہیں، جس نے افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لیے ہونے والی بات چیت کے لیے ہونے والی ملاقاتوں کو ممکن بنانے میں مثبت کردار ادا کیا۔  

افغان رہنماوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ افغانستان میں جامع حکومت بنانے کے مخصوص دعوے کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں حکومت بنانے کے حوالے جو مطالبہ عوام میں سب سے زیادہ زور پکڑ رہا ہے وہ خواتین کے حقوق سے متعلق ہے۔  

انہوں نے افغان طالبان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی غلطیاں دہرانے کی صورت میں ان کی تحریک زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکے گی، اور افغان عوام کی حمایت کھو بیٹھے گی۔  

انہوں کا کہنا تھا: ’مسلح تنازعے کے نتیجے میں کسی علاقے پر قبضہ کرنا اور اس پر حکومت کرنا دو مختلف معاملات ہیں، اور دوسرا کام پہلے سے بہت مشکل ہے۔‘ 

افغان رہنماوں نے کہا کہ آج کا افغانستان 1996 سے بہت مختلف ہے، جہاں نوجوان سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف زیادہ مائل ہیں، جبکہ خواتین اپنے حقوق سے باخبر ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ مختلف گروہوں کی نمائندگی پر مشتمل ایک جامع حکومت ہی افغانستان میں معاملات کو سیدھی راہ پر ڈال سکتی ہے، اور امن کی واپسی یقینی بنا سکتی ہے۔ 

افغان رہنماؤں نے کابل کی مستقبل میں بننے والی حکومت سے نے مذہبی اقلیتوں کے تحفظ، خواتین کے حقوق اور میڈیا کی آزادی سے متعلق ضمانتوں کا مطالبہ کیا۔  

افغان رہنماؤں نے اشرف غنی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنازع کے پہلے دن سے ہی واضح تھا کہ سابق صدر بھاگ جائیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ اطلاعات کے مطابق اشرف غنی صرف اپنے جوتے لے کر بھاگے ہیں، اور اگر ان اطلاعات پر یقین کیا جائے تو وہ 69 ملین ڈالر لے کر فرار ہوئے۔   

افغان رہنماؤں کے وفد نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے دہرایا نہیں جانا چاہیے۔ 

’ہم نے پاکستان کو مدد حاصل کرنے والا پہلا ملک منتخب کیا۔‘ 

پاکستان میں موجودگی کے دوران افغان وفد نے وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔  


افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد حکومت سازی میں تاخیر سے عام لوگوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں، جو بے چینی کا سبب بن رہے ہیں۔ ان حالات میں حقوق انسانی کی چند بین الاقوامی تنظیموں نے بھی طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں افغان عوام کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔

ہیومن رائٹس واچ اور میڈیا واچ نے ایک بیان میں کہا کہ ملک میں حکومت کے خاتمے کے بعد عوام کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جن کا ’امارت اسلامیہ کی قیادت‘ کو جلد از جلد حل تلاش کرنا چاہیے۔

خوراک اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، چند بڑی مارکیٹیں اب بھی بند ہیں، کئی سرکاری اداروں کی غیر فعالیت جیسے کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے دفاتر کا بدستور بند ہونا، شہر کی سڑکوں پر مسلح طالبان کی نقل و حرکت سے پیدا خوف اور چوکیوں پر لوگوں سے شناخت کا تقاضا کیا جا رہا ہے جو ان کی آمد رفت میں خلل ڈال رہا ہے جبکہ بجلی کا بھی بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

ایک الگ بیان میں ہیومن رائٹس واچ اور میڈیا واچ نے  طالبان پر میڈیا میں خواتین اور مردوں کے کام کرنے پر کوئی جامع پالیسی نہ ہونے کی شکایت بھی کی ہے۔ ان کے مطابق مختلف صوبوں میں میڈیا کے ساتھ مختلف سلوک کیا جا رہا ہے۔ ’مرد اور خواتین صحافیوں کو کابل میں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن کچھ صوبوں جیسے کہ مشرقی صوبے ننگرہار اور لغمان میں خواتین صحافیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

تاہم ادھر کابل میں بھی ایک خاتون ٹی وی میزبان نے الزام لگایا کہ طالبان نے انہیں آج ٹی وی چینل میں داخل نہیں ہونے دیا۔ طلوع ٹی وی کی میزبان شبنم دوران نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ مردوں کو طالبان نے دفتر جانے دیا تاہم انہیں واپس لوٹا دیا۔

ہیومن رائٹس واچ اور میڈیا واچ نے ملک کے تمام میڈیا اداروں پر زور دیا کہ وہ معلومات کی فراہمی میں اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھیں اور صحافت کے اصولوں کے مطابق نشریات جاری رکھیں۔

امر اللہ صالح کا غصہ

سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے، جو پاکستان مخالف بیانات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، جمعرات کی صبح اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ’قوموں کو تشدد کا نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کا احترام کرنا چاہیے۔ افغانستان اتنا بڑا ہے کہ پاکستان نگل نہیں سکتا اور طالبان کے لیے حکومت کرنے کے لیے بہت بڑا ہے۔‘

انہوں نے  ایک روز قبل سابق صدر محمد اشرف غنی کے ملک جانے کے بعد اپنے آپ کو افغان آئین کے مطابق قائم مقام صدر قرار دیا تھا۔

امر اللہ صالح کے پاس سے سب کچھ چلا گیا لیکن ان کی پاکستان مخالف تان ابھی بھی باقی ہے۔

امر اللہ صالح نے ان لوگوں کی بھی حمایت کی جو بدھ کے روز افغانستان کے مختلف شہروں میں قومی پرچم کی حمایت میں نکلے اور احتجاج کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان واقعات میں بہت سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

پاکستان کے سفیر کی حامد کرزئی سے ملاقات

تیسری بڑی خبر یہ ہے کہ کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد نے سابق افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی جس میں عبداللہ عبداللہ بھی موجود تھے۔

خوش آئند بات ہے کہ پاکستان پرو ایکٹیو رول ادا کر رہا ہے اور افغان باہمی مشاورت میں اس کا کردار موجود ہے۔

پاکستان بار ہا کہتا رہا ہے کہ افغانستان کا فوجی نہیں بلکہ پرامن سیاسی حل تلاش کیا جائے جبکہ پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان شہری جو بھی قیادت منتخب کریں گے اسلام آباد اسے من و عن تسلیم کرے گا۔

طالبان نے جیسے کہا تھا کہ تمام فریقین پر مشتمل حکومت بنے گی، اسی جانب ان کی کوششیں رواں دواں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اچانک کابل بھی ہاتھ آ جانے کے بعد طالبان کو کتنا وقت لگتا ہے اور وہ افغانستان میں کس طرح کی حکومت بنا پاتے ہیں۔


القاعدہ کی طالبان کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے پر مبارک باد

عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی یمنی شاخ (اے کیو اے پی) نے طالبان کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے اپنی فوجی مہمات جاری رکھنے کے عزم کا ظاہر کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق القاعدہ کی شاخ کے جاری ایک بیان میں کہا گیا: ’اس فتح اور طاقت کے حصول سے واضح ہو گیا کہ جہاد اور لڑائی اسلام کے لحاظ سے قانونی اور حقیقت کی نمائندگی کرتے ہیں تاکہ (مسلمانوں کے) حقوق بحال کیے جا سکیں اور حملہ آوروں اور قابضین کو نکال دیا جائے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’جہاں تک جمہوریت کے کھیل اور امن پسندی کا سوال ہے تو یہ ایک دھوکہ دینے والا سراب، ایک عارضی سایہ اور ایک شیطانی دائرہ ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ ختم ہونے والا ہے۔‘

طالبان نے نائن الیون کے بعد 1996 سے 2001 تک افغانستان میں قائم اپنی حکومت کے دوران القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی لیکن دو دہائیوں بعد دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کا کہنا تھا کہ افغان سرزمین کو کسی دہشت گرد تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

امریکہ اے کیو اے پی کو القاعدہ کے عالمی نیٹ ورک کی سب سے خطرناک شاخ سمجھتا ہے اور نائن الیون کے حملوں کے فوراً بعد یمن میں ان جنگجوؤں کے خلاف ڈرون حملے کر چکا ہے۔

لیکن اتوار کو یمن کے مرکزی صوبہ بیدا اور جنوبی صوبہ شبوا میں اے کیو اے پی کے جنگجوؤں نے افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کا جشن منایا اور آتش بازی اور ہوائی فائرنگ کی۔

اس گروپ نے 2014 سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے درمیان جاری جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنوبی یمن میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنایا ہے۔


افغانستان سے فوجی انخلا کے دوران افراتفری ناگزیر تھی: صدر بائیڈن

صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی شہریوں کو افغانستان سے باحفاظت نکالنے کے لیے امریکی فوج انخلا کی ڈیڈلائن 31 اگست کے بعد بھی ملک میں رہ سکتی ہے۔

 

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کو امریکی چینل اے بی سی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر بائیڈن نے کہا: ’اگر کوئی امریکی رہ گئے ہیں تو ہم تب تک رہیں گے جب تک ان سب کو نکال نہ لیں۔‘

کابل ایئرپورٹ پر افراتفری کے مناظر کی وجہ سے جو بائیڈن کے افغانستان سے امریکی انخلا سے نمٹنے کے طریقے پر انہیں کئی حلقوں سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔

بدھ کو بھی امریکی قانون ساز ان پر زور دیتے رہے کہ وہ انخلا کی تاریخ کو آگے بڑھائیں۔

اپنے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 20 سال کے مشن کے ختم ہونے پر مسائل ناگزیر تھے۔

’یہ تصور کہ وہاں سے نکلنے کا کوئی ایسا طریقہ تھا جس کے بعد افراتفری نہ ہو۔ مجھے نہیں معلوم وہ کیسے ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان ابھی تو امریکیوں کو ملک سے نکالنے میں تعاون کر رہے ہیں، مگر امریکیوں کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کو نکالنے میں ’کچھ مشکلات پیش آرہی ہیں۔‘


کابل میں دکانوں پر بنی خواتین کی تصاویر کو چھپانے کی کوششیں

اے ایف پی کے مطابق افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد کابل اور ارد گرد کے علاقوں میں بیوٹی پالرز اور سٹورز کے باہر خواتین کی تصاویر کو رنگ ڈال کر یا پھر بورڈز کو توڑ پھوڑ کر چھپایا جا رہا ہے۔

طالبان کے پہلے دورہ حکومت کے خاتمے کے دو دہائیوں بعد کابل اور ملک کے دیگر حصوں میں سینکڑوں بیوٹی پارلرز کھل گئے تھے۔

یہ سیلونز ان خواتین کو میک اپ اور مینی کیور کی سروس فراہم کر رہے تھے جنہیں طالبان نے اپنا پورا جسم ڈھانپنے پر مجبور کر دیا تھا۔

لیکن 20 سالوں بعد طالبان کے دارالحکومت پر دوبارہ قبضے کے بعد کم از کم ان میں سے ایک سٹور نے اپنی بیرونی دیواروں کو وائٹ واش کیا ہے تاکہ اشتہارات میں مسکراتے ہوئے خواتین کے چہروں کو چھپایا جا سکے۔

ایک اور بند سیلون کے باہر گشت کرتے ہوئے طالبان جنگجو نے اس کی دیواروں پر ماڈلز کی تصاویر کو چھپانے کے لیے ان کو سیاہ سپرے پینٹ سے خراب کر دیا۔

قطر میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے برطانیہ کے سکائی نیوز کو بتایا تھا کہ خواتین کو مکمل برقعہ پہننے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کون سا لباس ان کے لیے قابل قبول ہوگا۔

انہون نے یہ بھی کہا کہ طالبان خواتین کو یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیں گے۔

طالبان کے اور نمائندے نے کہا کہ طالبان ’خواتین کو اسلام کے اصولوں کے مطابق کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے پرعزم ہیں۔‘


11 دن میں حکومت کے خاتمے کا کوئی اشارہ نہیں تھا: امریکی جنرل

پینٹاگون کے ٹاپ جنرل نے افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے جواب میں امریکی فوجی ردعمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا تھا کہ امریکی تربیت یافہ افغان فورسز اتنی جلدی ڈھیر ہو جائیں گیں۔  

جوائنٹ چیفس آف چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا: ’میں نے یا کسی اور نے ایسا کچھ نہیں دیکھا جو 11 دن میں ہی اس فوج اور حکومت کے خاتمے کا اشارہ کر رہا تھا۔‘

اے ایف پی کے مطابق ان کا کہنا تھا: ’افغان سکیورٹی فورسز میں صلاحیت تھی۔ ان کے پاس تعداد، ٹریننگ اور صلاحیت تھی کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کر سکیں۔ یہ جذبے اور قیادت کا معاملہ تھا۔‘


افغانستان کی آئی ایم ایف کے فنڈز تک رسائی بند

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان میں قانونی طور پر اس وقت حکومت کس کی ہے؟ یہ معاملہ غیر واضح ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے فی الحال ملک کے لیے اپنی فنڈنگ روک دی۔

فنڈ کے ایک عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا: ’عالمی برادری میں ابھی یہ واضح نہیں کہ افغانستان میں حکومت کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں، اسی لیے ملک ابھی آئی ایم ایف کے وسائل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔‘

ان وسائل میں 37 کروڑ ڈالرز مالیت کے قرضے کا پروگرام اور سپیشل ڈرائنگ رائٹس کی شکل میں ریزروز تک رسائی شامل ہے۔

اس سے قبل طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد واشنگٹن بھی امریکی اکاؤنٹس میں افغانستان کے اثاثوں تک رسائی کو روکنے کے اقدام لے چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا