امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا کے بعد کینیڈا کا بیجنگ اولمپکس کا بائیکاٹ

کینیڈا کی وزیر خارجہ نے مزید ممالک پر بھی کھیلوں کا بائیکاٹ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’چین کو سخت اشارہ بھیجنا ضروری ہے۔‘

بیجنگ کے شوگینگ پارک میں سرمائی اولمپکس کا پوسٹر۔ چار مغربی ممالک نے چین میں اولمپکس کا بائیکاٹ کردیا ہے (اے ایف پی)

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ ان کا ملک چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات پر بیجنگ میں سرمائی اولمپکس 2022 کے سفارتی بائیکاٹ میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا ساتھ دے گا۔

یہ اعلان امریکی، آسٹریلوی اور برطانوی حکومت کی جانب سے فروری میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کے اعلانات کے بعد کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بدھ کو کہا کہ ان کی حکومت حالیہ مہینوں میں اتحادیوں کے ساتھ اس بارے میں بات چیت کر رہی تھی۔ ’ہمیں چینی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی بار بار خلاف ورزیوں پر انتہائی تشویش ہے۔‘

کینیڈا کے وزیراعظم نے کہا کہ انہیں حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کوئی ’سفارتی نمائندگی نہیں بھیجیں گے۔‘

یاد رہے کہ سفارتی بائیکاٹ کا امریکی، آسٹریلوی، برطانوی اور کینیڈین کھلاڑیوں کی کھیلوں میں شرکت پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ 

انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں ایک عرصے سے چین میں کھیلوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس کی وجہ وہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بتاتی ہیں۔ ان خلاف ورزیوں میں سنکیانگ کے علاقے میں اویغور مسلمانوں پر مظالم، جنہیں کچھ نے نسل کشی سے بھی تشبیہ دی ہے، ہانگ کانگ میں جمہوریت پسند مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن، تائیوان پر بڑھتا فوجی اور سفارتی دباؤ اور حال ہی میں ٹینس سٹار پینگ شوائی کے حوالے سے تنازع شامل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانی جولی نے اس حوالے سے کہا کہ مزید ممالک کو بھی اسی طرح کی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’چین کو سخت اشارہ بھیجنا ضروری ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قابل قبول نہیں ہیں۔‘

چین نے ان فیصلوں کے خلاف بیانات بھی دیے ہیں۔ بدھ کو آسٹریلیا کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ ون بِن نے امریکہ کی ’اندھی پیروی‘ کرنے پر آسٹریلیا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا: ’چاہے وہ آئیں یا نہ آئیں، کسی کو پروا نہیں ہے۔‘

اسی طرح برطانیہ کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد چین نے بدھ کو برطانیہ پر الزام لگایا کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے سرمائی اولمپکس میں برطانوی وزرا کی شرکت نہ کرنے کا اعلان کرکے اولمپک جذبے کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے اولمپکس2022 کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔

روئٹرز کے مطابق لندن میں چینی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے کہا: ’چینی حکومت نے برطانوی حکومت کے عہدیداروں اور وزرا کو بیجنگ میں اولمپکس میں شرکت کی دعوت نہیں دی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’بیجنگ سرمائی اولمپکس اولمپک ایتھلیٹس اور سرمائی کھیلوں کے شوقین افراد کا اجتماع ہے، کسی بھی ملک کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کا آلہ نہیں۔‘

اولمپک سفارتی بائیکاٹ سے کیا حاصل ہوتا ہے؟

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ اور کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت دینے کا مقصد میزبان ممالک کو جھٹکا دینا ہے۔

بیجنگ اولمپک کے آغاز میں دو ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، ایسے میں چین کو حکومتی بائیکاٹ ایک چھوٹا سا جھٹکا لگا ہے۔

ان سیاسی ہتھیاروں کا شریک کھلاڑیوں پر اثر صفر کے قریب ہونا چاہیے اور ناظرین کو اپنے نشریاتی مواد میں بھی کوئی فرق نظرنہیں آنا چاہیے۔

ان کا مقصد میزبان ممالک جیسے کہ چین کے غرور کو ٹھیس پہنچانا سمجھا جاتا ہے۔

آسٹریلیا، پھر برطانیہ اور کینیڈا میں حکومتوں نے چار سے 20 فروری کو ہونے والے سرمائی اولمپکس میں حکام بھیجنے سے انکار کا اعلان کیا ہے۔ چین کے خلاف اس اقدام میں امریکہ نے پیر کو ابتدا کی تھی۔

یہ ممالک دیرینہ سفارتی اتحادی ہیں جو چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور خاص طور پر اس کے مسلم اکثریتی اویغور عوام کے ساتھ سلوک پر توجہ مرکوز کروانا چاہتے ہیں، جسے کچھ لوگ نسل کشی کہتے ہیں۔

بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) جس کے قائدین کو عالمی سیاست میں اس کے ممکنہ مقام کا گہرا احساس ہے۔ آئی او سی کے رہنما یہ کہہ کر اولمپک برانڈ کو چمکدار بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ایونٹ واحد ہے جس نے دنیا کے لیے امن و دوستی کی مثال کے طور پر 200 سے زیادہ قومی ٹیموں کو اکٹھا کیا۔

اولمپک مشن

اولمپک چارٹر قواعد اور ضمنی قوانین کا ضابطہ ہے جو آئی او سی کو چلاتا ہے اور ’اولمپک کھیلوں کے لیے شرائط طے کرتا ہے۔‘

’آئی او سی کے مشن اور کردار‘ سے متعلق قاعدہ دو اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد کرتا ہے کہ کسی بھی بائیکاٹ کو اس کے اصولوں کی تذلیل کیوں سمجھا جاتا ہے۔

اس کے مطابق: ’اولمپک تحریک کے اتحاد کو مضبوط بنانے، اس کی آزادی کے تحفظ، اس کی سیاسی غیر جانبداری کو برقرار رکھنے، فروغ دینے اور کھیل کی خودمختاری کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنا۔‘

آئی او سی کے لیے سیاسی غیر جانبداری کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ اولمپک کے میزبان ملک کو اس کی پالیسیوں اور کھیلوں سے ہٹ کر طرز عمل کی وجہ سے کھیلوں کے انعقاد سے نہیں روکا جانا چاہیے۔

آئی او سی کے سینیئر رکن جوآن انتونیو سمارانچ نے رواں ہفتے کہا کہ ہم ہمیشہ سیاسی دنیا سے زیادہ سے زیادہ احترام اور اپنے کھیلوں، اولمپک ورلڈ اور نظریات میں کم سے کم ممکنہ مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بائیکاٹ کی تاریخ

آئی او سی پر 1976 تا 1984 تک 100 سے زیادہ ممالک کی جانب سے مشترکہ طور پر تین سمر گیمز کا مکمل بائیکاٹ کرنے کے پرانے گھاؤ ابھی تک ہیں۔

1976 کے مونٹریال اولمپکس میں زیادہ تر افریقی ممالک نے نیوزی لینڈ کے خلاف اس لیے احتجاج کیا تھا کہ اس کی رگبی ٹیم نے اپارتھائیڈ دور کے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تھا۔

1980 کا ماسکو اولمپکس امریکہ اور دیگر درجنوں ٹیموں کے بغیر ہوا، جو سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

سوویت بلاک اور کچھ اتحادیوں نے 1984 میں لاس اینجلس اولمپکس کے بائیکاٹ کے ساتھ جواب دیا تھا۔

چار دہائیاں قبل ہزاروں کھلاڑی اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے سے محروم رہے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا