امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس 20 جنوری کو جب اپنے عہدے کا حلف لیا تو شاید پاکستانیوں کی اکثریت یہ تصور بھی نہیں کر رہی تھی کہ وہ ان کے ملک کے بارے میں اتنی دلچسپی لیں گے۔
لیکن حالیہ ہفتوں میں ان کی زبان سے متعدد مرتبہ پاکستان اور انڈیا کا ذکر ساتھ ساتھ سنا گیا۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان رواں ماہ 6 سے 10 مئی کے دوران چار روزہ لڑائی کے بعد جب سیز فائر پر اتفاق ہوا تو صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ امریکہ کی ثالثی میں انڈیا اور پاکستان فوری جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔
پاکستان نے اس ثالثی پر امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا لیکن انڈیا کا کہنا ہے کہ جنگ بندی ٹرمپ کے کہنے پر نہیں کی گئی۔
بدھ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی افریقہ کے صدر رامافوسا سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران بھی اسلام آباد اور نئی دہلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا کو بدترین فوجی تصادم سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرنے کے لیے امریکی تجارتی تعلقات کا استعمال کیا تھا۔
انڈیا اس دعوے کی نفی کرتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا: ’اگر آپ اس پر ایک نظر ڈالیں کہ ہم نے ابھی پاکستان اور انڈیا کے ساتھ کیا کیا، ہم نے وہ سارا معاملہ طے کر لیا اور مجھے لگتا ہے کہ میں نے اسے تجارت کے ذریعے طے کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پاکستان میں کچھ بہترین لوگ ہیں اور کچھ حقیقی اچھے لیڈر بھی۔ انڈیا میں میرے دوست ہیں، مودی، (وہ) ایک زبردست آدمی ہیں۔‘
10 مئی کو ہونے والی سیز فائر کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان زمینی، فضائی اور سمندر میں فوجی عسکری کارروائیاں رک چکی ہیں اور جنگ بندی برقرار ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی میڈیا پر مسلسل کسی نہ کسی حوالے سے صدر ٹرمپ کا تذکرہ جاری ہے۔
صدر ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہوں دونوں ممالک سے کہا تھا کہ اگر وہ کشیدگی میں کمی پر آمادہ ہوں تو وہ ان کی تجارت میں مدد کریں گے۔
بدھ کو بھی انہوں نے کہا کہ ’ہم انڈیا کے ساتھ بڑے سودے کر رہے ہیں۔ ہم پاکستان کے ساتھ بڑے سودے کر رہے ہیں۔‘
تاہم امریکی صدر نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی پاکستان کی طرف سے اس بارے میں کچھ کہا گیا ہے۔
ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی میں مدد کی بلکہ کشمیر کے تنازعے کے حل میں بھی ثالثی کی پیشکش کی تھی۔
نئی دہلی نے ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر دو طرفہ مسئلہ ہے جب کہ پاکستان نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے
ماضی میں پاکستان کہتا رہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی روابط کو بڑھانا چاہتا ہے لیکن خود امریکی صدر کے ساتھ اب تواتر کے ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان سے تجارت کو آگے بڑھائیں گے۔