پاکستان کے نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ جاری سٹیڈبائی معاہدے کی تکیمل پر ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ جاری سٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط کے حصول کے لیے اسلام آباد میں جاری مذاکرات آج (پیر کو) ختم ہو رہے ہیں اور حکومت آئی ایم ایف سے قرض کے ایک پروگرام کے حصول کے لیے کوششیں شروع کر چکی ہے جس کا ذکر نومنتخب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گذشتہ ہفتے میڈیا سے گفتگو میں بھی کیا ہے۔
آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس 15 اپریل سے واشنگٹن میں ہوں گے۔ جہاں پاکستان کی جانب سے نئے اور بڑے قرض پروگرام کے لیے درخواست دی جائے گی۔
وزیر خزانہ محمد اونگزیب واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی سپرنگ میٹنگز میں شریک ہوں گے۔
آئی ایم ایف جائزہ مذاکرات کا آخری روز
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت آخری اقتصادی جائزہ مذاکرات جاری ہیں، جو پیر کو اختتام پذیر ہوں گے۔
شیڈول کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 14 سے 18 مارچ تک مذاکرات ہوں گے، 18 مارچ کو اعلامیہ جاری ہو گا۔
معلومات کے مطابق تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مذاکرات میں پیش رفت متوقع ہے۔
ان مذاکرات میں میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کے مسودے کو حتمی شکل دی جائے گی، دوسرا اقتصادی جائزہ مکمل ہونے پر پاکستان کو تین ارب ڈالر کے قرض پیکج سے ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی آخری قسط ملے گی جس کی منظوری بورڈ اپریل میں دے گا۔
حکومت پاکستان کے اس اعلان اور آئی ایم ایف پروگرام کے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے، اس کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے معاشی ماہرین سے رابطہ کیا ہے۔
حکومت کا آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے لیے بات چیت کیسا اقدام ہے؟
ماہر معاشی امور و صحافی شکیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 7.9 ارب ڈالرز ہیں جو نہایت کم ہیں۔ پاکستان کی دو ماہ کی درآمدات کا بل تقریباً آٹھ ارب ڈالرز بنتا ہے۔
’اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ذخائر دو ماہ کے بلوں کی ادائیگی سے بھی کم ہیں تو بلوں کی ادائیگی کیسے ہو گی۔ یہ ایک الارمنگ سیچوایشن ہے۔
’اس لیے پاکستان کے لیے نیا آئی ایم ایف پروگرام لینا ناگزیر ہے اور حکومت کا یہ بروقت اقدام ہے کہ سٹینڈ بائی معاہدے کی آخری قسط کے ساتھ ہی نئے پروگرام پر بھی بات چیت شروع کر رہے ہیں۔
’کیونکہ گذشتہ دور حکومت میں پہلا سال ضائع کر دیا گیا تھا اور آئی ایم ایف کے پاس سال بعد گئے تھے وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف پروگرام نہیں لے سکے تھے جس کے بعد خفیظ شیخ کو لایا گیا تو انہوں نے آئی ایم ایف ای ایف ایف سائن کیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی پاکستان نے زبانی طور پر آئی ایم ایف کو نئے پروگرام سے متعلق آگاہ کیا ہے لیکن باضابطہ مذاکرات آئندہ ماہ واشنگٹن میں شروع ہوں گے۔ جب پاکستانی وفد باضابطہ نئے پروگرام کی درخواست دے گا۔
’نئے پروگرام کے لیے پاکستان کا جو کوٹہ ہے اس کے مطابق پاکستان چھ ارب ڈالر قرض لے سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کوشش ہے کہ آٹھ بلین ڈالرز تک کا قرض مل جائے۔ آئی ایم ایف نے کلائمیٹ فنانسنگ بھی شروع کر رکھی ہے۔ جو موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک ہیں ان کو الگ پروگرام میں بھی قرض دیتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اب پاکستان کی خواہش یہ ہے کہ چھ ارب ڈالرز کی ایکسٹینڈڈ فنڈز فیسلیٹی نیا پروگرام ہو گا، جبکہ کلائمیٹ فناسنگ پروگرام سے بھی دو یا 2.5 ارب ڈالر قرض پاکستان کو مل جائے تو کُل ملا کر آٹھ ارب ڈالرز یا اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔‘
آئی ایم ایف کے نئے پروگرام سے عوام کے لیے مسائل بڑھیں گے؟
معاشی امور کے ماہر صحافی و تجزیہ نگار شہباز رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان اور آئی ایم ایف نئے پروگرام کے لیے بات چیت کا آغاز کر چکے ہیں۔ ابھی تو جو بات چیت ہے اس کے مکمل ہونے میں کچھ وقت لگے گا اور ایک نیا آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنے کے لیے پاکستان کوشش کرے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے نئے پروگرام سے معیشت کو تو وقتی فائدہ ہوتا ہے لیکن عوام کے مسائل میں ان پروگراموں سے اضافہ ہی ہوا ہے۔ مسائل میں اضافہ اضافی ٹیکسوں کی صورت میں، بجلی اور گیس کے بھاری بلوں کی مد میں، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عوام کے اوپر بوجھ ہی پڑتا رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی بھی جو نیا پروگرام سائن ہو رہا ہے اس میں جو آئی ایم ایف کی شرائط ہوں گی اس میں بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور کچھ نئے ٹیکسز بھی لگائے جائیں گے۔ ہر نئے پروگرام کے آغاز میں کہا جاتا ہے کہ ایک دو سال عوام کو مشکل وقت کاٹنا پڑے گا پھر معیشت مستحکم ہو جائے گی لیکن ایسا ہوا کبھی نہیں۔‘
سینئر صحافی شکیل احمد نے کہا کہ ’نئے پروگرام کے ساتھ ہی ٹیکس کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں گی تاکہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے۔
ان کے مطابق ’ڈالر کے حوالے سے ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کے مطابق رکھا جائے، اس طرح ڈالر کا ریٹ بھی بڑھنے کی توقع ہو گی جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
’لیکن اس کے ساتھ آئی ایم ایف کی یہ بھی شرائط ہیں کہ غریب پر اس کا بوجھ نہ پڑے بلکہ حکومت اصلاحات کے زریعے انہیں سہولت دے، سرکاری اداروں میں اصلاحات یعنی کچھ اداروں کی نجکاری بھی آئی ایم ایف پروگرام کی شرط میں شامل ہو گا۔‘
ان کے مطابق ’آئی ایم ایف معاہدوں میں ہر تین ماہ بعد ٹیم آ کر جائزہ لیتی ہے کہ شرائط پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں؟ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ آئی ایم ایف کے چیک اینڈ بیلنس کی وجہ ملک میں معاشی ڈسپلن قائم ہو گا جس پر عمل درآمد سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔‘
آئی ایم ایف کے ساتھ مرکزی پروگرام ناکام ہوا تھا؟
پاکستان نے جون 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ای ایف ایف پروگرام (ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی) سائن کیا تھا۔ جو جون 2023 میں ناکامی پر ختم ہو گیا تھا۔
شہباز رانا نے بتایا کہ ’وہ 6.5 ارب ڈالر کا پروگرام تھا لیکن پاکستان کو 3.9 بلین ڈالر ملے تھے لیکن پروگرام کی ناکامی پر بقایا 2.6 ارب ڈالر نہیں ملے تھے۔
’پروگرام ناکام اس لیے ہوا تھا کہ پاکستان شرائط پوری نہیں کر سکا۔ جب وہ پروگرام ناکام ہونے کے بعد ختم ہوا تو اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدہ سائن کیا تھا جس کی مدت نو ماہ تھی اور اس میں تین ارب ڈالر پاکستان کو ملنے تھے، گزشتہ برس جولائی میں معاہدہ ہوا جو رواں سال اپریل میں مکمل ہونا ہے۔
’پہلی قسط گذشتہ برس جولائی میں ہی مل گئی تھی جو تقریباً 1.2 بلین ڈالر تھی، اس کے بعد 700 ملین ڈالرز الیکشن سے قبل ملا تھا جبکہ آخری قسط نو 1.1 ارب ڈالرز نو منتخب حکومت کو بورڈ کی منظوری کے بعد ملے گی۔
سٹینڈ بائی معاہدہ اور ایکسٹینڈد فسیلیٹی فنڈ میں کیا فرق ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق ’سٹینڈ بائی معاہدہ ایمرجنسی ارینجمنٹ ہوتا ہے اس کے ساتھ کوئی اصلاحات منسلک نہیں ہوتیں، جبکہ ای ایف ایف معاہدہ طویل مدتی ہوتا ہے اور رقم بھی زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی شرائط بھی کڑی ہوتی ہیں۔
پاکستان جو نیا معاہدہ کرے گا وہ ایکسٹینڈڈ فیسلیٹی فنڈ ہے۔ اس حوالے سے جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ بنیادی طور پر سٹینڈ بائی معاہدے کی آخری قسط کے ہیں جو آئی ایم ایف نے 12 اپریل سے پہلے پاکستان کو جاری کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی ایم ایف سے قرض کیسے ملتا ہے؟
اںڈپینڈنٹ اردو کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق آئی ایم ایف کے رکن ممالک جو قرض حاصل کرتے ہیں وہ درحقیقت ان ممالک کے ہی پیسے ہوتے ہیں۔
ہر رکن ملک آئی ایم ایف کو اپنے حصے کے پیسے دیتا ہے اور اس حصے کے عوض آئی ایم ایف ہر رکن ملک کا ایک کوٹہ بناتا ہے۔ اس کوٹے کے اندر رہ کر آئی ایم ایف سے ضرورت کے تحت قرض حاصل کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی رکن ملک اپنے مخصوص کوٹے سے زیادہ قرض حاصل کرنے کا خواہاں ہے تو یہ قرض مشروط ہوتا ہے اور قرض حاصل کرنے والے ملک کو چند معاشی اصلاحات پر مبنی شرائط پوری کرنی پڑتی ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔